محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں میئر کے انتخاب کے موقعہ پر وہی کچھ ہوا جس کی توقع تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے تمام تر حربوں کو استعمال کر کے اپنا میئر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔ کراچی کی تاریخ میں پہلی بار پی پی پی کا میئر بنا ہے۔ ان کے لئے یقینی طور پر یہ خوشی کی بات ہے، مگر جس طرح یہ سب کچھ ہوا ، وہ نہایت افسوسناک اور قابل تنقید ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں ابتدا ہی سے بہت سے مسئلے مسائل رہے۔ سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے پر تیار نہیں تھی، بڑی مشکل سے عدالتی فیصلوں کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا۔ پھر جب بلدیاتی الیکشن ہوئے تو اس میں خاصے تنازعات نے جنم لیا۔ پہلے تو پری پول رگنگ کا الزام لگا کہ پی پی پی نے اپنی مرضی کے حلقے بنائے اور اپنے اکثریتی ووٹ والے علاقوں کو دانستہ نئے ٹائون میں شامل کیا۔ اس پر اعتراضات ہوتے رہے، مگر حکومت نے کسی کی نہیں سنی۔ الیکشن ڈے پر بہت سے اعتراض، شکایات وغیرہ ہوتی رہیں۔انتخابی نتائج سنانے میں غیر معمولی تاخیر کی گئی، جو سمجھ سے باہر تھی۔ دو تین دنوں تک نتائج ہی نہیں آئے۔ جب رزلٹس سامنے آئے تو ہر کوئی ششدر رہ گیا کہ پیپلزپارٹی کی اپنے فطری شیئر سے بہت زیادہ نشستیں تھیں۔الیکشن سے پہلے صاف نظر آ رہا تھا کہ حافظ نعیم کی کرشماتی اور مضبوط شخصیت کی وجہ سے جماعت اسلامی کراچی الیکشن میں سب سے بڑی اور اہم ترین جماعت ہوگی۔ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کی پیش گوئی کی جا رہی تھی جبکہ تیسرے پر پیپلزپارٹی۔ نتائج ایسے آئے جو ماننے والے نہیں تھے۔ اس پر بہت سے جھگڑے مسائل پیدا ہوئے۔ الیکشن کمیشن کا کردار اس حوالے سے نہایت کمزور، قابل اعتراض اور انتہائی مایوس کن تھا۔یہ سوال پیدا ہوا کہ جو الیکشن کمیشن کراچی شہر میں ڈھنگ سے بلدیاتی الیکشن نہیں کرا سکتا، وہ پورے ملک میں جنرل الیکشن کیسے کرائے گا؟کراچی میں کئی یوسی حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے چاہیے تھے یا بہت سی جگہوں پر دوبارہ گنتی کرائی جاتی ، جس میں تساہل اور انکار سے کام لیا گیا۔ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے مضبوط موقف اپنایا اور بعض حلقوں کے نتائج بدلنے میں کامیاب بھی رہے۔ البتہ تحریک انصاف اور اس کی کراچی قیادت کا رویہ بہت کمزور، تھکا ہوا اور ناقابل فہم تھا۔ علی زیدی نے اس بارے میں کوشش ہی نہیں کی۔ جہاں جہاں وہ کلوز ہارے یامبینہ طور پر ہرائے گئے، وہاں بھی انہوں نے ری پولنگ یا ری کائونٹنگ کی درخواست نہیں کی۔ حافظ نعیم کے ایک قریبی دوست نے مجھے بتایا کہ ہم حیران ہیں کہ تحریک انصاف اپنا کیس کیوں نہیں لڑ رہی ؟ وہ اپنے چھینے ہوئے حق کو واپس پانے کے لئے فائیٹ کیوں نہیں کر رہی ہے ؟ یہ بات آج سمجھ آتی ہے جب علی زیدی، عمران اسماعیل جیسے لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر عمران خان کے بدترین سیاسی دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں، وہ جہانگیر ترین کی پارٹی کے اہم رکن بن چکے ہیں۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تحریک انصاف کی کراچی میں شکست کی بنیاد خود ان کے اپنے لیڈروں نے رکھ دی تھی۔ اس گھر کو اسی کے چراغ سے آگ لگی۔ اس سب کچھ کے باوجود میئر کے الیکشن کے لئے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اتحاد بنا چکے تھے، ان کے پاس اکثریت تھی۔پیپلزپارٹی نے اپنے تمام تر حربے آزما لئے ، اس کے باوجود انہیں سادہ اکثریت نہیں مل سکی۔ ان کے پاس ن لیگ، جے یوآئی وغیرہ کو ملا کر بھی ٹوٹل 173ووٹ تھے جبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کے پاس 193ارکان تھے، یعنی پیپلزپارٹی سے کوئی بیس ارکان زیادہ ۔ پھر وہ کھیل کھیلا گیا، جس نے جمہوریت اور جمہوری، سیاسی روایات کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا۔ پچھلے کئی روز سے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم اور دیگر لوگ شور مچا رہے تھے کہ ایک سال پہلے تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو سندھ ہائوس میں ٹھیرائے جانے کی طرز پر تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کو ورغلا کر الگ کر لیا گیا ہے اور ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا جا رہا۔ یہ خبریں بھی آئیں کہ بعض ارکان کو مبینہ طورپر گھروں سے اٹھا لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر بعض لوگ یہ پوسٹیں کرتے رہے کہ ان کے قریبی دوست غائب ہیں اور رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ پیپلزپارٹی والوں کے پاس اپنے دلائل ہوں گے، مگر ہم جیسے لوگ جنہوں نے پاکستانی سیاست میں چھانگا مانگااور سوات میں لوٹوں کی سیاست دیکھ رکھی ہے،ابھی پچھلے سال ہی سندھ ہائوس میں ٹھیرائے جانے والے تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی اللے تللے اور ان کی ٹی وی کیمرہ پر ڈھٹائی سے کی گئی گفتگو سنی، راجہ ریاض جیسے شخص کو صریحاً دھاندلی اور غلط طریقے سے لیڈر آف اپوزیشن بنتے دیکھا، انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کہاں گئے اور کس نے انہیں مختلف ترغیبات سے اپنا ضمیر سلانے پر مجبور کیا۔ ہمارے ہاں ضمیر جاگتا نہیں بلکہ درحقیقت مفادات یا کبھی جبر کے باعث ضمیر سو جایا کرتا ہے اور پھر انتہائی درجے کے بے ضمیری سرزد ہوا کرتی ہے۔ افسوس کراچی کے الیکشن میں جمہوریت، سیاسی اور جمہوری روایات کو شکست ہوئی۔ پیپلزپارٹی جیت گئی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا مشترکہ امیدوار حافظ نعیم ہار گیا۔ تحریک انصاف کے بتیس ارکان ووٹ ڈالنے آئے ہی نہیں، یوں پیپلزپارٹی کے ووٹ بڑھ گئے اور حافظ نعیم کو محض 161 ووٹ ملے، وہ ہار گئے، مگر انہیں اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے۔ ع تجھے اے جگرـؔ مبارک یہ شکست فاتحانہ جماعت اسلامی کے ارکان کو ان کی استقامت ، جرات اور عزیمت پر مبارک باد پیش کرنی چاہیے۔ ان کے تمام ایک سو تیس ارکان حاضر تھے، ایک بھی نہیں ٹوٹ سکا۔ یہ جماعت کی خوبی ہے کہ سینیٹر سے رکن اسمبلی اور بلدیاتی چیئرمین سے کونسلر تک کہیں پر ایک بھی شخص قابل فروخت نہیں ہوتا۔ ہمیشہ سب لوگ اپنے نظریے اور پارٹی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ان کی تربیت اور اخلاقی مضبوطی کی علامت ہے، جسے سراہنا چاہیے ۔ تحریک انصاف کے نصف ارکان جبر یا ترغیب کے ہاتھوں شکست کھا گئے، افسوسناک ہے۔ البتہ تحریک انصاف کے تیس کے قریب لوگ جرات اور استقامت سے مبینہ حکومتی دبائو کے سامنے کھڑے رہے۔ انہیں سراہنا چاہیے ۔ یہ تحریک انصاف کی ہارڈ کور ہے، انکی اصل اور ان کا سرمایہ۔ پارٹی چیئرمین کو چاہیے کہ اپنی سابقہ غلطیوں کا جائزہ لیں، جن لوگوں پر انہوں نے اتنے برس تکیہ کئے رکھا، وہی دھوکہ دے گئے۔ لے دے کر مڈل کلاس لوگ ہی کام آئے۔ پی ٹی آئی میں شامل کراچی کی اشرافیہ مشکل وقت میں اندھادھند فرار ہوئی ، کسی نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ جو ارکان میئر کے الیکشن میں اپنی پارٹی، قائد اور اپنے اتحادی سے کی گئی کمٹمنٹ نبھانے پہنچے، وہ سب مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس لوگ ہیں۔ پارٹیوں کو ایسے کیڈر اور لوگوں کی یہ قدر کرنی چاہیے ۔ میرے نزدیک کراچی الیکشن جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں سیاسی تعاون اور اتحاد کا نکتہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں فطری اتحادی ہیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کے قریب آنے کے بجائے دور چلی جاتی ہیں۔ انہیں اپنے مشترکات کو سامنے رکھ کراکھٹا کام کرنا چاہیے ۔ کراچی میں ان دونوں پارٹیوں کو آگے بھی اکھٹا چلنا چاہیے۔ چند ماہ بعدعام انتخابات ہونے والے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ تب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف انتخابی اتحاد بنائیں۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے ہی آگے بڑھیں۔ مل بانٹ کر شیئر لیں اور سب کچھ اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینے کی حریصانہ خواہش سے ہر حال میں دور رہیں۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمن کو شکست ہوئی ہے، مگر انہوں نے خود کو منوایا ہے۔ وہ ایک دلیر، قابل اور باہمت لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ انہیں اپنے چھینے ہوئے حق کی خاطر فائٹ ضرور کرنی چاہیے، لیکن وہ بطور اپوزیشن لیڈر بھی بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اہل کراچی کے مسائل کو جاندار انداز میں اٹھاتے رہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں انہیں اس کا ثمر کراچی والے ضرور دیں گے۔ انہیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے باہمی فاصلے بھی کم کرانے چاہئیں۔کراچی کے بہتر مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر چلیں ۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر