سرفراز راجا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات شروع ہوئے چند ہی گھنٹے گزرے تھے،ایک بڑے ہال کے کونے پر پڑی میز کے گرد بیٹھے دونوں افراد کے چہرے پر سنجیدگی نمایاں تھی،میز پر کاغذ کے صفحات بکھرے پڑے تھے،ایک شخص نے کاغذ پہ کچھ تحریر کیا اور دوسرے کی جانب دھکیل دیا،دوسرے نے اس تحریر کو کچھ دیر بغور دیکھا جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا ہو پھر نفی میں سر ہلایا اور کاغذ واپس اسی شخص کی جانب دھکیل دیا اس نے کاغذ اٹھایا، پھاڑا اور ساتھ پڑی کوڑے کی بالٹی میں پھینک دیا۔
جو پہلے ہی ایسے ضائع کئے گئے صفحات سے بھررہی تھی، ،پھر اس نے کاغذ پر کچھ تحریر کیا اور دوسرے کے سامنے کر دیا اس کے چہرے پر ایک خوشی بھری مسکراہٹ پھیلی ، جیسے کسی بڑے مسئلے کا حل مل گیا ہو، اس نے فوری طور پر ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا ، نمبر ملایا اور کسی سے وہی کاغذ پر لکھی تحریر دیکھتے ہوئے بات کی ، کچھ دیر خاموش رہا جیسے کوئِی ہدایات لے رہا ہواور پھر قلم اٹھا کر اسی کاغذ پر کچھ مزید تحریر کیا،پھر فون رکھ دیا اور تحریر دوسرے شخص کے سامنے بڑھا دی جس نے اسے دیکھا،کاغذ کا نیا ٹکڑا اٹھایا ،کچھ تحریر کیا اورواپس سامنے رکھ دیا،پہلے شخص نے اثبات میں سر ہلایا ،کچھ فاصلے پر بیٹھے ایک اور شخص کواشارہ کر کے بلایا ،اسے یہ کاغذ دیا اور کچھ ہدایات دے کر بھیج دیا۔
کاغذ کے اس ٹکڑے پر چار پانچ الفاظ کی ایک تحریر تھی،جسے اس تیسرے شخص نے ساتھ والے کمرے میں بیٹھے ایک آدمی کے حوالے کردیا جہاں بہت سے کمپیوٹرز پڑے تھےاور ان پربیٹھے لوگ کام میں ایسے مگن تھے جیسے وقت ختم ہونے والا ہے اور کوئی انتہائی ضروری کام مکمل کیا جانا ہے۔
یہ ایک بڑے اخباری ادارے کا نیوز روم تھا،اور جو دو افراد نے چار پانچ الفاظ کی تحریر پر طویل عرق ریزی کر رہے تھے وہ یہاں کے سینئر ترین لوگ تھے۔وہ اخبار کی لیڈ سٹوری کی سرخی نکالنے پر کام کررہے تھے،یہ اپنے صحافتی کیرئر کا ابتدائی دور تھا،ایک دن انہی میں سے ایک سینئر کو فرصت سے بیٹھے دیکھا تو پوچھ لیا آپ صرف چند الفاظ کی ہیڈ لائن پر اتنا وقت کیوں لگا ڈالتے ہیں،انہوں نے کچھ دیر توغور سے دیکھا، جیسے برا مان لیا ہو پھر ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھنے کا کہا،،اور کرسی پر پہلو بلدتے ہوئے بولنا شروع کیا۔
یہ کئی دہائیاں پہلے کی بات ہے،ستر کے الیکشن ہوچکے تھے،مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے کلین سویپ کرلیا تھا،جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالقفار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی،اسمبلی کا اجلاس بلانے،حکومت سازی جیسے معاملات پیچیدگی کا شکار بنے ہوئے تھے،ملک کے دونوں حصوں میں عدم اعتماد آئے روز بڑھتا جارہا تھا، ایک دن ذوالفقار علی بھٹو کی شاید کراچی میں کسی خطاب کی ایک ایسی خبر رپورٹ ہوئی جس میں تنازعہ کے حل کے لئے تجویز دی گئی کہ جہاں جس کی اکثریت ہے وہ حکومت بنالے،معلوم نہیں اس گفتگو کا پس منظر اور پیش منظر کیا تھا،اس رات ہم نے جو ہیڈ لائن بنائی وہ کچھ یوں تھی “ادھر تم ،،،ادھرہم”
اس شہ سرخی کے چار الفاظ سے جو پیغام گیا وہ تقسیم کی آگ کو مزید ہوا دینے کا باعث بنا،اخباری سرخی کہ یہ الفاظ تاریخ میں آج بھی پاکستان ٹوٹنے کی ایک وجہ سمجھے جاتے ہیں،پھر نصیحت کے انداز میں بولے ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا آپ کا لکھا گیا ایک ایک لفظ اہم ہوتا ہے یہ ہر کسی کے لئے اس کی سمجھ بوجھ کے مطابق الگ معنی مہیا کر سکتا ہے،اس لئے تحریر اور خبر میں الفاظ کا چناو ہمیشہ سوچ بچار کے بعد کرو۔
یہ تو تھے ہماری کلاسک صحافت کے کچھ معیارات، جو یقینا اچھے برے تجربات کے بعد ہی سامنے آئے ،لیکن پھر الیکٹرانک میڈیا کی بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔جہاں خبر سے زیادہ وقت کا مقابلہ تھا، پہلے خبر دینے کا اعزار برقرار رکھنے میں خبر سے زیادہ اعزاز برقرار رکھنے پر توجہ ہو گئی ۔
پھر انٹرنیٹ کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی تو صحافت کی رفتار اس سے بھی تیز ، ٹیکنالوجی فرسٹ،سیکنڈ سے تھرڈ جنریشن میں پہنچی تو صحافت بھی فرسٹ کلاس سے تھرڈ کلاس میں۔
ٹچ ٹیکنالوجی نے ٹچ صحافت کو جنم دیا۔ جو اصل میں ان ٹچ ثابت ہوئی، ٹچ ٹیکنالوجی نے ان کو بھی ایک ٹچ میں صحافی بناڈالا جو صحافت کی الف ب سے بھی ان ٹچ نہ تھے۔
حقیقی صحافی بیچارہ تواس کرکٹر کی طرح تھا جیسے سکھایا گیا تھا ہمیشہ سیدھے بلے سے شارٹ مارو، مڈ آن اور مڈ وکٹ کے دمیان،،یعنی” وی ” میں کھیلو،وہ اس سیدھَا کھیلنے، کراس شارٹ نہ لگانے کے چکر میں رہا اورٹچ دور کے نووارد اناڑی کھلاڑی الٹی سیدھی شارٹس کھیل کر کم وقت میں زیادہ سکور کر کے آگے نکل گئے، سبسکرائبرز،ویوز اور لائیکس کی اس دوڑ نے معیار تو دور خبر کی اہمیت بھی ختم کردی۔ جب خبر کی اہمیت نہیں تو صحافی بھی فارغ۔ بڑا صحافی وہی بن گیا جو جیسے تیسے بھی کرے بس ویوز اور لائیکس لے۔
تھرڈ اورفورتھ جنریشن ٹیکنالوجی کی ففتھ جنریشن وار نے تو اس بحث کو ہی ختم کردیا کہ اصل میں صحافی ہے کون؟ اب تو بڑے بڑے صحافی بھی مان گئے ہیں کہ بڑا صحافی بننے کے لئے بڑی خبر کی نہیں بڑے لائیکس اور ویوز کی ضرورت ہے۔ باقی رہی صحافت تو وہ گئی” تیل ” لینے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ