نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غلطیاں تو بھٹو صاحب سے بھی ہوئیں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض کرتا ہوں جمہوریت، سیاستدانوں اور پارلیمانی نظام کو گالیاں دلوانے اور آگے چل کر اٹھارہویں ترمیم کو کوسنے کے لئے تیار کئے گئے لشکروں اور سکیورٹی اسٹیٹ کی ’’حرمت‘‘ کے قصیدے پڑھنے والی ففتھ جنریشن وار والی مخلوق پالنے پوسنے کے یہی نتائج نکلنے تھے۔

سیاسی عمل اور جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اختلاف ہوتا ہے نفرت نہیں کی جاتی۔ یہاں اختلاف رائے کو گالی بنادیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اکتوبر 1999ء کے بعد تخلیق کئے گئے لشکروں کا حاصل وصول کیا ہوا؟ یہی جو 9مئی کو ہوا۔

دو تین دن ادھر سرگودھا میں دوستوں کی ایک مجلس میں عرض کیا کہ

’’مالکان کو سوچنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر جنگجو منظم انداز میں اتارے گئے اور جو تیار شدہ لشکر عمران خان کو سونپے گئے ان کی موجودہ حالت کا ذمہ دار کون ہے۔ اربوں روپے لگائے گئے سکیورٹی اسٹیٹ کے فضائل کے پرچار کے لئے اب خالق اور تخلیق آمنے سامنے ہیں۔

ساعت بھر کے لئے رکئے، کیا عمران خان پر تنقید کفروشرک اور جرم ہے؟ میری دانست میں بالکل بھی نہیں ایک عمران خان ہی کیا ہم تو ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کو جرم نہیں سمجھتے۔

بھٹو صاحب ہمیں محبوب ہوئے مگر ہم ان کے اندھے عشق میں مبتلا نہیں ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اگر یہ چھوٹی غلطیاں بھی ہوں تو سمجھنے والی بات یہ ہے کہ بڑے آدمی کی چھوٹی غلطی بھی قیامت ڈھاتی ہے۔

بھٹو صاحب نے دستور کے خیمے میں مذہب کے اونٹ کو لابیٹھایا ان جیسا مقبول عام لیڈر کٹھ ملائیت کے مقابلہ میں پسپا ہوا۔ بھٹو صاحب نے بٹوارے کی نفرت کو 1971 کے تازہ واقع کی روشنی میں یک قومی شاونزم سے مزید بڑھایا

ہم ان دوتین غلطیوں کے نتائج اب تک بھگت رہے ہیں اور یہ تب تک بھگتیں گے جب تک ان غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوتی ۔ لیکن کیا مسلکی نفرتوں کی بنیاد پر تقسیم شدہ معاشرے میں اصلاح احوال ممکن ہے؟

بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

بالآخر ایک دن یہ احساس دوچند ہوکر رہے گا کہ ریاست کو اجتہاد کا حق نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کہ ریاست کا کوئی مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا۔ خاص عقیدہ اور مذہب رکھنے والی ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں آباد دیگر عقیدوں اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مساویانہ برتائو نہیں کرپاتی۔

بدقسمتی سے بٹوارے کی بنیادوں میں بھری ہوئی نفرتوں کے رزق پر پلی نسلوں کو یہی مرغوب ہے۔ سو بہت احترام کے ساتھ کم از کم میں اس ساری صورتحال کا جو آج ہے تمام تر ذمہ دار عمران خان اور اس کے ہمدردوں کو نہیں سمجھتا۔

عمران خان کو ایک مسیحا، صادق و امین، نجات دہندہ اور کرپشن سے پاک شخص کے طور پر ہیرو بنانے والوں کے اپنے دامن داغدار تھے۔ کیا جنرل (ر) حمید گل پر نارووال میں زمینوں پر قبضے کے الزامات نہیں تھے۔ یہ ایک مثال ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرہے کہ سکیورٹی اسٹیٹ کا رویہ اور تکبر دونوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کار مختاروں جیسے تھے۔

تبدیلی اب بھی نہیں آئی جب تک اس سوچ میں تبدیل نہیں آتی اور ہمارے سوا سب جاہل ہیں کی فہم کے مرض سے نجات حاصل نہیں کی جاتی، اصلاح احوال ممکن ہی نہیں۔

ہمارے جو دوست 9 اور 10مئی کے واقعات کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی مزاحمت کا ہمالیہ قرار دے کر اس پر یا عمران خان کے مجموعی طرزعمل پر تنقید پر برہم ہوتے ہیں انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق ہے مگر اس رائے کی بنیاد پر دوسروں کی تذلیل کا بالکل حق نہیں۔

ایک ایسے شخص کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے جو ایک دن کیا نصف گھنٹہ بھی اپنی ہی کہی بات پر قائم نہ رہ سکتا ہو۔ میں دو تین مثالیں عرض کئے دیتا ہوں۔

سپریم کورٹ میں بلائے جانے پر بولے میں تو جیل میں تھا مجھے کیا معلوم باہر کیا ہوا میں اس کا کیسے ذمہ دار ہوسکتا ہوں۔

اس سے اگلے روز ہائیکورٹ میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا فوج نے جس طرح مجھے گرفتار کیا اس پر ردعمل تو آنا تھا۔

لاہور پہنچ کر کہا 9اور 10مئی کے واقعات سے تحریک انصاف کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر ارشاد ہوا، ایجنسیوں نے احتجاج کرنے والوں میں اپنے بندے شامل کرکے بلوہ کروایا۔

ایک دن بعد کہا میرے کارکن جلائو گھیرائو میں شامل ہیں تو ثبوت لائیں میں انہیں گرفتار کروانے میں مدد کروں گا۔

اب گزشتہ روز کہا، 9اور 10مئی کے واقعات کو بنیاد بناکر میری پارٹی توڑی جارہی ہے۔

ان کے مداح ہر ایک ارشاد کو درست سمجھتے ہیں یقیناً درست ہوگا لیکن اتنا درست بھی نہیں کہ فی الوقت انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی علامت سمجھ لیا جائے کیونکہ وہ تو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ

’’میں ان کا مخالف نہیں وہ پتہ نہیں مجھ سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتے‘‘۔

ان ساری باتوں کو اٹھارکھئے ایک ایسے وقت میں جب بقول ان کے 99فیصد پاکستانی ان کے ساتھ ہیں تو پھرایک فیصد مخالفین و ناقدین کو برداشت کرلیجئے یہ ایک فیصد کیا بگاڑ لیں گے۔ گزشتہ روز انہوں نے ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 80فیصد امکان ہے کہ منگل کو جب میں اسلام آباد پیش ہونے جائوں تو مجھے گرفتار کرلیا جائے۔ یہ بھی کہا کہ یہ لوگ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائیں گے‘‘۔

انہیں اپنی گرفتاری اور اہلیہ پر کرپشن کے مقدمات کی بہت فکر ہے اتنی فکر انہیں ان گرفتار شدگان مردوزن کی بھی کرنی چاہیے جو ان کی بھڑکائی نفرت کی آگ میں کودے۔

بہت سارے نو انقلابی کہتے ہیں کہ ان گرفتار شدگان کی حمایت کی جانی چاہیے۔ بالکل کیجئے لیکن دلیل سے دھونس سے نہیں۔ میں ایک گزشتہ کالم ’’ملٹری کورٹس یا ملکی قوانین؟‘‘ میں تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر عرض کرچکا باردیگر یہ لکھنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ 9اور 10مئی کو جو کچھ ہوا اس کے ظاہراً ذمہ دار گرفتار شدگان ہیں لیکن اصل ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے یہ لشکر تخلیق کیا اس میں نفرت بھری۔

چلئے وضاحت کے ساتھ ایک نکتہ پھر سے دہرائے دیتا ہوں کہ اگر 9اور 10مئی کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہ کیا گیا تو گرفتار شدگان کے خلاف سول یا فوجی عدالتوں کی کارروائی پر سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمانی نظام، جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف عمومی فضا بنانے میں اربوں روپے صرف کئے وہ بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے۔

’’انہیں‘‘ سوچناہوگا کہ ان کی تخلیق دشمن چور غدار اور موروثی سیاست پر برسنے کی بجائے خالق کے گریبان سے کیوں الجھی؟ جب تک اس سوال کا جواب نہ مل جائے مزید بونگیاں مارنے کی ضرورت نہیں۔

دوبارہ عرض کئے دیتا ہوں وقت اور حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی مخالف سیاستدان کے مذہب، عقیدے اور دوسرے معاملات پر آوازیں کسنے، بھد اڑانے اور جنس کا تمسخر اڑانے کے نتائج بہت بھگت لئے۔

آئی جے آئی اور مسلم لیگ (ن) نے 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں جن بدزبانیوں کو رواج دیا تھا اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ ایک دن نہ صرف میاں نوازشریف کو اس پر معذرت کرنا پڑی بلکہ انہوں نے سمندر میں پھینکے جانے کے قابل پیپلزپارٹی سے میثاق جمہوریت کیا اور یہ اعتراف بھی کہ ہم پر آئی ایس آئی کا دبائو تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو، آصف زرداری اور پیپلزپارٹی والوں کے خلاف مقدمات بنائے جائیں۔

مجھ طالب علم کی اب بھی یہی رائے ہے کہ میثاق جمہوریت نے مالکان کو اپنی نئی جماعت بنوانے کی ضرورت کا احساس دلایا۔ اکتوبر 2011ء میں انہوں نے تحریک انصاف کو باضابطہ طور پر گود لیا اس کی تعمیروترقی میں مالکان کس حد تک چلے گئے درجنوں بار ان سطور میں مثالیں عرض کرچکا۔

یہ کہنا کہ اس وقت عمران اور پی ٹی آئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جدوجہد کی علامت ہیں درست نہیں۔ پہلے جدوجہد کے ماخذات سمجھنا ہوں گے۔ سیاسی عمل اور نفرتوں کی آبیاری کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مثلاً عمران خان سائفر لہراکر کہتے تھے امریکہ نے پی ڈی ایم اور میر جعفر ومیر صادق کے ذریعے میری حکومت گرائی۔ روس کے دورہ کو ایک وجہ کے طور پر پیش کرتے تھے۔

آج وہ اسی امریکی سامراج سے تعاون کے طلب گار ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ سیاستدانوں، ان کے اہل خانہ، سرکاری افسروں اور انکے خاندانوں کے عقائد پر سوال اٹھانا گھٹیا ترین سوچ کا مظاہرہ ہے یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر ہے نہ کسی کی والدہ محترمہ جہیز میں لائی ہیں یہ 25کروڑ لوگوں کا ملک ہے وہی اس کے مالک ہیں۔ ان 25کروڑ میں سے کتنوں کا کیا مذہب اور عقیدہ ہے اس پر سوال اٹھانے والے پست فطرت لوگوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author