عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آوازوں کا مقابلہ ہاتھوں کے ساتھ ہے، گرہوں کی ضد دانتوں کے ساتھ اور ’میں‘ کی لڑائی ’انا‘ سے ہے۔ اب اس لڑائی میں ہاتھ کتنے استعمال ہوں گے شور کتنا بڑھے گا اور ناک کتنے کٹیں گے یہ لڑائی کے بعد ہی معلوم ہو گا، ابھی تو کھیل اکھاڑے میں ہے۔
کھیل کیا ہے اور کھلاڑی کون سب کو نظر آرہا ہے مگر اس کھیل کا انجام کیا ہو گا اس کی خبر کسی کو نہیں۔
اس کھیل میں اندر اور باہر کے کھلاڑی آزمائے جا رہے ہیں جبکہ ریفری سیٹی ہاتھ میں لیے دور بیٹھا سب کے ہارنے کے انتظار میں ہے یا کسی اور سیٹی کا منتظر۔
اس وقت تین اکھاڑے ہیں، ہمیشہ سے حاوی اسٹیبلشمنٹ اپنے اندرونی خطرات بھانپ کر ریت میں گردن دبائے اپنے کام میں مصروف ہے۔ ہائبرڈ دور کے اندرونی اور بیرونی ’اثاثے‘ اُنھیں کوئی اور کھیل کھیلنے نہیں دے رہے اور یہی حالات کا تقاضا بھی ہے۔
ریاست کے اندر ریاست کی اصطلاح پاکستان کے تناظر میں ماضی میں مختلف طرح سے استعمال ہوتی رہی۔۔۔ یعنی ایجنسیوں کی بیرونی اور اندرونی مداخلت کے زمرے میں مگر اب ریاست کے اندر ریاست خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ میں ’انتہائی اندرونی‘ گروہ اور اس کے پھیلے ہوتے پنجوں کے معنی میں استعمال ہو رہی ہے جسے ریاست کی چھتری تلے ایک صفحے کی حکومت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
پہلے ریاست کی ترجیح بیرونی خطرات سے نمٹنا تھی مگر اب ترجیحات میں اندرونی خطرات حاوی ہو چکے ہیں جس کی نشاندہی حال ہی میں آرمی چیف نے کی ہے۔
پانچویں نسل یعنی ’ففتھ جنریشن‘ چھٹی اور ساتویں نسل میں بدل چکی ہے۔ جدید اسلحے کی لڑائی کی جگہ کی بورڈ وارئیرز نے لے لی، میزائلوں کی جگہ سافٹ ٹیکنالوجی کے مورچہ بند مجاہد جبکہ اپنے ایجاد کردہ وائرس اپنی ہی صفوں پر حملہ آور ہیں۔
انٹیلیجنس کے اہداف بدل گئے ہیں، لڑائی کے انداز بدل گئے ہیں، سپاہیوں کے جذبات بدل گئے ہیں اور ہمارے حالات بدل گئے ہیں۔
اب کاش سے بات آگے نکل کر ثبات تک پہنچ گئی ہے۔ بیرونی چیلنجز نے اندرونی خوف بڑھا دیا ہے۔ اب خطرہ باہر سے کہیں زیادہ اندر سے ہے۔ نمٹنے کی کوشش میں ریاست کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں یہ کہانی الگ مگر بہرحال طاقت کے مرکز کو اپنی بقا کی جنگ تو لڑنا آتی ہے اور خدا کرے کہ اس بار اس محاذ پر نئے جنگجو تیار نہ کیے جائیں اور وہ سیاست سے دور اپنا کام کرنے پر مجبور رہیں۔
عدالتی کھیل کے کھلاڑی کھیل وہاں لے گئے ہیں جہاں ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سیاسی بحران سمٹ جاتا اگر عدالت مبینہ طور پر سیاسی کردار نبھانے سے گُریز کرتی۔ سیاست دانوں کو ایک میز پر بٹھانے والی عدالت کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ خود اپنے ہی ججوں کو ایک چھت تلے نہیں بٹھا سکتی۔ حالیہ تاریخ میں خود عدلیہ اپنے ہی کٹہرے میں ہے، منصف بھی اور مدعی بھی۔
گیند کورٹ سے باہر نہیں نکل رہی اور نہ ہی کورٹ کو گیند باہر نکالنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ عدالتی اکھاڑے کے رستم ہاتھ میں گُرز لیے اکیلے ہی دھوبی پٹکے مار رہے ہیں جبکہ تاثر ہے کہ کھیل اصولوں کے مطابق ہے۔
سیاسی میدان میں جاری کھیل کی بازی اُس کے ہاتھ ہے جس کے پاس بادشاہ بھی ہے اور پیادہ بھی، ملکہ بھی اُس کی اور گھوڑا بھی۔ عمران خان سارے پتے آزما رہے ہیں، ’ایبسولیٹلی ناٹ‘ کے بعد ’یس‘ کی مہم جاری ہے۔ شاید مقامی روایتی طاقت کے کرداروں سے مایوس ہیں جبھی ترکش کے تیر اور کندھے کوئی اور استعمال ہو رہے ہیں۔
عمران خان ستمبر سے پہلے انتخابات چاہتے ہیں جبکہ حکمران اتحاد اکتوبر میں۔ سپریم کورٹ کے پاس آپشنز محدود ہیں اور پارلیمنٹ کے پاس مدت۔ عدالتی اصلاحات کے قانون پر تلوار اور انتخابات کے بوجوہ انعقاد کے احکامات میں عدالت بہت آگے آ چکی ہے جہاں سے واپسی مزید حادثوں کا باعث بن سکتی ہے۔
سپریم کورٹ آرٹیکل 190 کے تحت اداروں کی معاونت کے اختیار کو اپنے ہی ہاتھوں کھو چکی ہے کیونکہ پہلی بار فوج عدالتی احکامات پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے اور الیکشن کمیشن واضح انکاری۔ پارلیمنٹ خود سر اور چوتھا ستون بے قابو۔
اب انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے کسی طور سپریم کورٹ خود میدان میں اُتر آئے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر یہ طے ہے کہ اس کھیل میں جیتے گا وہی جو کچھوے کی چال چلے۔ یہ اعصاب کا مقابلہ ہے اور اعصاب کی جنگ کے تمام مرحلے سیاست دانوں نے جیت رکھے ہیں۔
دیکھتے ہیں اس کھیل میں بازی کس کے ہاتھ آتی ہے؟ ریفری اور سیٹی پر ضرور نظر رکھیں۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر