قبلہ اول(مسجد اقصیٰ)
تحریر: سعدیہ امیر
ڈیرہ غازی خان
آج یہ تحریر لکھتے ہوئے دل میں درد کی لہریں بھی ساتھ اٹھ رہی ہیں۔ وہ مسجد اقصیٰ آج ان یہودیوں کے قبضے میں ہے جس مسجد اقصیٰ سے ہمارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج کے سفر کے لئے گئے ۔
وہ مسجد اقصیٰ جس کے ارد گرد کئی تعداد میں انبیاء کرام کی قبریں مبارک موجود ہیں۔ وہ مسجد اقصیٰ جس کی طرف میرے (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سترہ ماہ قبلہ رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔
وہ مسجد اقصیٰ جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے وہ مسجد اقصیٰ جو مسلم امت کی دوسری مقدس مسجد ہے۔
آج اس مسجد میں اسرائیلی مسلمانوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ آج اس مسجد میں گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔
سوال یہ بنتا ہے کہ دنیا کے ستاون مسلم ممالک ہیں جس میں زیادہ ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور کچھ معیشت کے حوالے سے بھی ٹھیک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے ستاون ممالک کے مسلمانوں کی غیرت کہاں ہے؟ کہاں ہیں ستاون ممالک کے حکمران؟ کیسے ان کا ضمیر ان کو یہ اجازت دے رہا ہے کہ وہ فلسطینوں پر اور مسجد اقصیٰ پر حملے کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر دیکھ رہے ہیں۔
کہاں ہے غیرت مسلمانوں کی کہ مسلمان قوم کی بیٹیوں کو وہ یہودی گردن سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال پھینکتے ہیں کہاں ہے غیرت ان ستاون مردہ حکمرانوں کی جو یہ دیکھ کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ فلسطینیوں کی بیٹیوں کے سروں کو وہ یہودی اپنے بازوؤں میں پھنسا کر مسجد اقصیٰ کی مقدس سیڑیوں سے نیچے گھسیٹتے ہیں۔
یہ مسلمان حکمران بلکہ نام نہاد حکمران جن کو اپنی معیشت کا جن کو اپنی حکومت کا جن کو بیرونی طاقتوں کا ڈر اپنی مسلم بیٹیوں کے لئے آواز نہیں اٹھانے دیتا۔
کتنی شرم کی بات ہے کہ مسلمان اس زمین پر غیرت کے نام سے جانا جاتا ہے تو کیسے مسلمانوں کی یہ غیرت گوارہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی مسلم بیٹیوں اور اپنے مقدس مقام کو کافروں کے حوالے کر دے۔
اگر انہی مسلمانوں کے گھر کی بیٹیوں کو کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ لیں تو لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں کیا وہ ان مسلمانوں کی بیٹیاں نہیں ہے جن کی گردنوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے۔ تب غیرت کہاں مر جاتی ہے؟ تب غیرت آواز نہیں دیتی اندر سے، کہ اٹھ تیری مسلم بیٹیوں کو تیری غیرت کی ضرورت ہے۔
جن مسلمانوں کی تاریخ ایسے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہو جس کو سن کو رونگٹے کھڑے ہو جائیں وہ مسلمان کیسے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ وہ صلاح الدین ایوبی جس نے ہزاروں کے لشکر کو اکیلے شکست دی جس نے مسجد اقصیٰ کو مظالم کے ہاتھوں سے آزاد کروایا تھا وہ بھی تو مسلم لیڈر تھا اس میں کیا ڈر نہیں تھا
ایک اللہ کا ڈر تھا جو تمام ڈر سے آزادی دے دیتا ہے۔ وہ ڈر بھی تو آئے نا آج کے نامی مسلمانوں میں۔مسلمانوں کی تاریخ نے صلاح الدین ایوبی جیسے دلیر مجاہد ہمیں دیے، مسلمان کی تاریخ تو یہ ہے کہ
جب سترہ سالا نوجوان کو ایک مسلم بیٹی کا خط ملا تھا کہ یہاں تمہاری قوم کی بیٹیوں کو ظالم نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے اور مسلمان ان کی آزادی کے لیے نکل نہیں رہے تو اس محمد بن قاسم نے نہیں سوچا کیسے آزاد کرایا جائے
، بس لشکر تیار کیا اور نکل پڑے، ان کے لشکر کے لیے بصرہ کی عورتوں نے گھر گھر میں تبلیغ کی اور لاکھوں روپے جمع کیے۔ یہ تاریخ ہے مسلمانوں کی کہ جس تاریخ کی عورتیں بھی جہاد میں اپنا کردار ادا کرنے سے پیچھے نہ رہیں۔
تو آج کے مرد مسلمانوں کی غیرت کس غار میں سوئی ہے؟ تاریخ کا پہلا لشکر ایسا تھا جس کی قیادت ایک سترہ سالا نوجوان کر رہا تھا اس لشکر کو لے کر محمد بن قاسم سندھ پہنچے اور راجہ داہر کو شکست دی اور اپنی مسلم بیٹیوں کو آزاد کرایا۔
آج کے سترہ سالا نوجوان کیسی کیسی خراب عیاشیوں میں مگن ہیں جن کا ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔
جب اسلام میں جہاد کا حکم ہے تو کسی مسلمان حکمران کو بیرونی طاقتوں کا ڈر نہیں ہونا چاہیے جس کے ساتھ اللہ ہے اس کو کسی کا ڈر نہیں۔
اور جنگوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوتی غیرت اور اللہ پر بھروسہ مسلمان کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اگر مسلمان حکمران آواز اٹھا لیں تو وہ پچھتر سالوں سے جو کشمیر پر ظلم و ستم ہو رہا ہے
وہ آج نہ ہوتا۔ کشمیر کی کتنی ماؤں کے لال اپنی جان کی بازی لگا گئے۔
کشمیر،لبنان،غزہ،فلسطین کتنے ہی مظلوم مسلمان یہ راہ تکتے ہوں گے کہ کوئی تو مسلمان حکمران اپنی غیرت کو آگے رکھ کر ہمیں ان ظلموں سے باہر نکالے گا۔
قرآن میں ہے کہ
اور جب یہ لوگ زمین میں فساد کریں تو ان کی راہ میں جہاد کرو جب تک اللہ کا دین غالب نہ آ جائے
اس میں اللہ نے سیدھی بات فرما دی ہے کہ جب زمین میں فساد ہو تو تم مسلمانوں جہاد کرو تب تک کرتے رہو جب تک اللہ کا دین سر بلندی کو نہ پہنچے۔
بات ساری وہی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو اپنی غیرت جگانی ہو گی۔ بیرونی طاقتوں کے ڈر کو اپنے اندر سے نکالنا ہو گا تب جا کر حقیقی جہاد ہو گا۔
اگر اب مسلمانوں نے اپنے مظلوم مسلمان بیٹیوں اور بھائیوں کے لیے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا تو معاذ اللہ کے غضب کے لیے بھی تیار رہیں۔ اب بات صرف باتوں کی نہیں رہی اور نہ کافروں کے ظلموں پہ مذمت کی رہی ہے
اب صرف عمل کی ضرورت ہے اب کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ مسلمانوں کو اب اٹھنا پڑے گا۔ کیونکہ پانی اب سر سے اوپر گزر چکا ہے۔
ایک اللہ کا ڈر رکھیں عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کامیابی ناکامی بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے تمام بادشاہت بھی اللہ کی ہے تو پھر کیوں مسلمان حکمرانوں تم اپنی بادشاہت کے کھو جانے کے ڈر سے کوئی عمل نہیں کرتے۔
اپنے قبلہ اول کو ان ظالموں کے ہاتھوں شہید نہ کراؤ۔ اٹھو مسلمانوں اپنی غیرت جگاؤ کہ مسجد اقصیٰ تم کو پکار رہی ہے۔
اللہ تمام مسلمان مردہ حکمرانوں کی غیرت جگائے کہ وہ کچھ کر اٹھیں، اپنے مسلمانوں اور اپنے قبلہ اول کو کافروں کے ہاتھوں سے آزادی دلائیں۔ آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر