محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پاکستان اپنا تیسرا ٹی ٹوئنٹی میچ نیوزی لینڈ سے ہار گیا۔ میچ کلوز گیا، تکنیکی طور پر اخری گیند تک گیا، مگر ہار ہار ہی ہوتی ہے۔
اج کی ہار کی بڑی وجہ تو نیوزی لینڈ کی عمدہ کارکردگی ہے، خاص کر ان کی باولنگ خاصی اچھی اور نپی تلی رہی ۔
تاہم سب سے بڑی وجہ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کا نیوزی لینڈ کی ٹیم کو زیادہ ایزی لینا اور ضرورت سے زیادہ تجربات تھے۔
اج کے میچ میں اگر صرف ایک تبدیلی کر لی جاتی اور افتخار احمد کو ان کی اصل پوزیشن یعنی نمبر پانچ پر کھلا دیا جاتا تو قوی امکانات تھے کہ پاکستان جیت جاتا۔
نیوزی لینڈ نے ایک سو چونسٹھ رنز کا ہدف دیا، پاکستانی باولرز کی باولنگ ا ھی رہی اور دس پندرہ رنز کم بنے تاہم اخری پانچ اوورز میں نیوزی لینڈ نے پچاس کے لگ بھگ رنز بنائے۔ ممکن ہے زمان خان ہوتا تو شائد اخری تین چار اوورز میں زیادہ موثر ہوتا۔
بہرحال سکور زیادہ بڑا نہیں تھا، مگر کیوی باولرز اور ان کی عمدہ فیلڈنگ نے اسے مشکل بنا دیا۔
ایڈم ملن تیز باولر ہیں اور اپنی سپیڈ کی وجہ سے ابتدائی اوورز میں خطرناک ہوتے ہیں۔ اج ملن نے بابر کو چند گیندیں مس کرائیں تو بابر نے ایک عجلت والا شاٹ کھیلا جو ٹھیک نہیں لگا، اس پر رویندرا نے تھرڈمین پر بہت اچھا کیچ کیا۔ یہ میچ کااہم ٹرننگ موڑ تھا۔
دو اوورز بعد رضوان بھی بہت عمدہ فیلڈنگ اور اچھی تھرو کا نشانہ بنے۔ دوسرااہم موڑ۔ دونوں تجربہ کار اوپنرز ابتدا ہی میں اوٹ ہو گئے اور پاور پلے سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ جلد ہی صائم ایوب اوٹ ہو گئے۔ دراصل اج ملن، ہنری اور نیشم نے بہت اچھی باولنگ کرائی اور رہی سہی کسر دونوں سپنرز سوڈھی اور رویندرا نے پوری کر دی۔
صائم کے بعد افتخار کو آنا چاہئیے تھا، اس کی فارم، سٹرائیک ریٹ، ایوریج سب باقیوں سے بہتر ہیں اور افتخار سپنرز کو اچھے چھکے لگالیتے ہیں اور فاسٹ کو بھی ۔
حیران کن طور پر کپتان اور کوچ نے پہلے شاداب،عماد اور پھر شاہین شاہ کو بھیج دیا۔ شائد وہ تجربہ کرنا چاہ رہے تھے مگر جب سب کچھ غلط جا رہا ہو، بابر ،رضوان جلد اوٹ ہوگئے، رن ریٹ تیزی سے بڑھ کر دس تک چلا گیا، تب تجربہ کرنے کے بجائے تجربہ کار بلے باز کو بھیجنا چاہئیے۔
یہ ایسی پچ نہیں تھی جس پر شاہین شاہ پی ایس ایل کی طرح ہارڈ ہٹنگ کر سکتا، عماد بھی نہیں چل سکا۔
افتخار کو اٹھویں نمبر پر بھیجا گیا جب پاکستان کے ہاتھ سے میچ نکل چکا تھا۔ فہیم اشرف کی باری نویں نمبر پر آئی۔حالانکہ یہ دونوں نمبر پانچ اور چھ پر انے چاہئیے تھے۔
پاکستان میچ بری طرح ہارتا مگر افتخار کی شاندار دھواں دھار بیٹنگ نے بھرم رکھا اور آخری گیند تک گیا۔ افتخار نے ڈھائی سو کے سٹرائیک ریٹ سے ففٹی بنائی اور چھ چھکے لگائے،جس گیند پر اوٹ ہوئے وہ بھی چھکاہو سکتی تھی اور ایساہوتا تو پاکستان جیت جاتا۔
فہیم اشرف نے بھی بہت عمدہ بیٹنگ کی اور بعض اچھے شاٹس کھیلے، دو سو کے لگ بھگ سٹرائیک ریٹ سے فہیم کھیلا۔ فہیم اشرف نے اج باولنگ بھی اچھی کرائی اور کم رنز دئیے۔
فہیم اشرف خاصا عرصہ قومی ٹیم سے اوٹ رہا ۔ اس پی ایس ایل میں فہیم نے بعض میچز میں اخر تک ٹھیر کر اسلام اباد کو میچ جتوائے۔اسی پرفارمنس پر وہ ٹیم میں ایا اور اج اپنی موجودگی ثابت کی۔
افتخار نے اج افتی مینیاکامظاہرہ کیااور چھکوں چوکوں کی برسات کی، ملن جیسے باولر کے اس نے پرخچے اڑائے اور اس کے اخری اوور میں بائیس بنائے۔ افسوس کہ افتخار اور فہیم دونوں کی محنت ضائع گئی۔
قصور ان کا نہیں، انہیں بہت دیر سے بھیجا گیا۔
پاکستان کو اخری پانچ اوورز میں بہتر(72) رنز بنانے تھے۔ یہ بہت مشکل ہدف تھا، مسلسل پندرہ کی اوریج سے رنز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ٹیم مینجمنٹ کو سمجھنا چاہئیے کہ ہر میچ میں کرشمہ نہیں دکھایا جا سکتا۔ افتخار اج غیر معمولی کھیلا، لیکن اگر وہ اتنا تیز کھیلنے کے چکر میں وکٹ جلد گنوا بیٹھتا تو پاکستان تیس پینتیس رنز سے ہار جاتا۔ اور نیوزی لینڈ کی یہ ٹیم ایسی نہیں کہ اس سے اتنا برا ہارا جاتا۔
بابر نے میچ کے بعد کہا کہ ہم نے بیٹنگ ارڈر لچکدار رکھا اور افتخار کو اٹھویں نمبر پر بھیجا۔
بابر سے سوال پوچھنا چاہئیے کہ یہ لچکدار رویہ وہ اوپننگ کے بارے میں کیوں نہیں اپناتا؟ کسی میچ میں خود ون ڈاون یا ٹو ڈاون ا جائے اور صایم یا فخر کو اوپر کھلائے۔ایسا مگر کبھی نہیں ہو گا۔ لچکدار بیٹنگ ارڈر کے نام پر تمام تر تجربات مڈل اور لوئر ارڈر کے لئے ہوں گے۔
پہلے میچ میں شاداب نمبر پانچ پر ایا ،دوسرے میں عماد، اج پھر شاداب مگر کیوں؟
افتخار ہر لحاظ سے ان دونوں سے بہتر ہے، اسے کھلائیں۔ ویسے تو فہیم بھی شاداب اور عماد سے تکنیکی طور پر کم نہیں بلکہ شائد کچھ بہتر، اسے نمبر چھ پر کھلانا چاہئیے۔
خیر ہوم سیریز میں اور جب دو صفر کی برتری ہو تو تجربات ہو بھی سکتے ہیں،یہ اور بات کہ ان کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اج شکست کی صورت میں وہ قیمت چکائی۔
اج نسیم شاہ نے بھی اہم موقعہ پر تین گیندیں ضائع کیں۔ فہیم اوٹ ہوا تو نو گیندوں پر پندرہ چاہئیے تھے۔نسیم شاہ نے چھکے کے چکر میں تین گیندیں مس کر دیں اور یوں چھ پر پندرہ کا زیادہ مشکل ہدف بن گیا۔ نسیم شاہ کو چاہئیے تھا کہ پہلی گیند پر سنگل لینے کی کوشش کرتا کہ دوسری طرف افتخار موجود تھا جو دھواں دھار بیٹنگ کر رہا تھا۔ افتخار کو وہاں دو گیندیں مل جاتیں تو ممکن ہے چار پانچ رنز بن جاتے اور پھر اخری اوور قدرے اسان ہو جاتا۔ یہ چیزیں نوجوان نسیم کو سیکھنا ہوں گی۔ امارات میں افغان باولرز کو لگائے چھکوں کی طرح ہر بار نہیں ہوسکتا۔۔
مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے اج زیادہ غلطیاں کیں، نیوزی لینڈ کی ٹیم میں نوجوان کھلاڑی زیادہ ہیں مگر جو پانچ چھ تجربہ کار ہیں جیسے ٹام لیتھم،مچلز، نیشم، ملن، ہنری، سوڈھی ان سب نے بہت عمدہ کھیل پیش کیا اور میچ جیت کر سیریز کو لائیو بنا دیا۔ اب پاکستان کو سیریز جیتنے کے لئے اگلے دو میں سے ایک میچ لازمی جیتنا پڑے گا۔
ویل ڈن ٹیم نیوزی لینڈ۔
بیسٹ اف لک ٹیم پاکستان۔
اج کی ہار کی بڑی وجہ تو نیوزی لینڈ کی عمدہ کارکردگی ہے، خاص کر ان کی باولنگ خاصی اچھی اور نپی تلی رہی ۔
تاہم سب سے بڑی وجہ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کا نیوزی لینڈ کی ٹیم کو زیادہ ایزی لینا اور ضرورت سے زیادہ تجربات تھے۔
اج کے میچ میں اگر صرف ایک تبدیلی کر لی جاتی اور افتخار احمد کو ان کی اصل پوزیشن یعنی نمبر پانچ پر کھلا دیا جاتا تو قوی امکانات تھے کہ پاکستان جیت جاتا۔
نیوزی لینڈ نے ایک سو چونسٹھ رنز کا ہدف دیا، پاکستانی باولرز کی باولنگ ا ھی رہی اور دس پندرہ رنز کم بنے تاہم اخری پانچ اوورز میں نیوزی لینڈ نے پچاس کے لگ بھگ رنز بنائے۔ ممکن ہے زمان خان ہوتا تو شائد اخری تین چار اوورز میں زیادہ موثر ہوتا۔
بہرحال سکور زیادہ بڑا نہیں تھا، مگر کیوی باولرز اور ان کی عمدہ فیلڈنگ نے اسے مشکل بنا دیا۔
ایڈم ملن تیز باولر ہیں اور اپنی سپیڈ کی وجہ سے ابتدائی اوورز میں خطرناک ہوتے ہیں۔ اج ملن نے بابر کو چند گیندیں مس کرائیں تو بابر نے ایک عجلت والا شاٹ کھیلا جو ٹھیک نہیں لگا، اس پر رویندرا نے تھرڈمین پر بہت اچھا کیچ کیا۔ یہ میچ کااہم ٹرننگ موڑ تھا۔
دو اوورز بعد رضوان بھی بہت عمدہ فیلڈنگ اور اچھی تھرو کا نشانہ بنے۔ دوسرااہم موڑ۔ دونوں تجربہ کار اوپنرز ابتدا ہی میں اوٹ ہو گئے اور پاور پلے سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ جلد ہی صائم ایوب اوٹ ہو گئے۔ دراصل اج ملن، ہنری اور نیشم نے بہت اچھی باولنگ کرائی اور رہی سہی کسر دونوں سپنرز سوڈھی اور رویندرا نے پوری کر دی۔
صائم کے بعد افتخار کو آنا چاہئیے تھا، اس کی فارم، سٹرائیک ریٹ، ایوریج سب باقیوں سے بہتر ہیں اور افتخار سپنرز کو اچھے چھکے لگالیتے ہیں اور فاسٹ کو بھی ۔
حیران کن طور پر کپتان اور کوچ نے پہلے شاداب،عماد اور پھر شاہین شاہ کو بھیج دیا۔ شائد وہ تجربہ کرنا چاہ رہے تھے مگر جب سب کچھ غلط جا رہا ہو، بابر ،رضوان جلد اوٹ ہوگئے، رن ریٹ تیزی سے بڑھ کر دس تک چلا گیا، تب تجربہ کرنے کے بجائے تجربہ کار بلے باز کو بھیجنا چاہئیے۔
یہ ایسی پچ نہیں تھی جس پر شاہین شاہ پی ایس ایل کی طرح ہارڈ ہٹنگ کر سکتا، عماد بھی نہیں چل سکا۔
افتخار کو اٹھویں نمبر پر بھیجا گیا جب پاکستان کے ہاتھ سے میچ نکل چکا تھا۔ فہیم اشرف کی باری نویں نمبر پر آئی۔حالانکہ یہ دونوں نمبر پانچ اور چھ پر انے چاہئیے تھے۔
پاکستان میچ بری طرح ہارتا مگر افتخار کی شاندار دھواں دھار بیٹنگ نے بھرم رکھا اور آخری گیند تک گیا۔ افتخار نے ڈھائی سو کے سٹرائیک ریٹ سے ففٹی بنائی اور چھ چھکے لگائے،جس گیند پر اوٹ ہوئے وہ بھی چھکاہو سکتی تھی اور ایساہوتا تو پاکستان جیت جاتا۔
فہیم اشرف نے بھی بہت عمدہ بیٹنگ کی اور بعض اچھے شاٹس کھیلے، دو سو کے لگ بھگ سٹرائیک ریٹ سے فہیم کھیلا۔ فہیم اشرف نے اج باولنگ بھی اچھی کرائی اور کم رنز دئیے۔
فہیم اشرف خاصا عرصہ قومی ٹیم سے اوٹ رہا ۔ اس پی ایس ایل میں فہیم نے بعض میچز میں اخر تک ٹھیر کر اسلام اباد کو میچ جتوائے۔اسی پرفارمنس پر وہ ٹیم میں ایا اور اج اپنی موجودگی ثابت کی۔
افتخار نے اج افتی مینیاکامظاہرہ کیااور چھکوں چوکوں کی برسات کی، ملن جیسے باولر کے اس نے پرخچے اڑائے اور اس کے اخری اوور میں بائیس بنائے۔ افسوس کہ افتخار اور فہیم دونوں کی محنت ضائع گئی۔
قصور ان کا نہیں، انہیں بہت دیر سے بھیجا گیا۔
پاکستان کو اخری پانچ اوورز میں بہتر(72) رنز بنانے تھے۔ یہ بہت مشکل ہدف تھا، مسلسل پندرہ کی اوریج سے رنز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ٹیم مینجمنٹ کو سمجھنا چاہئیے کہ ہر میچ میں کرشمہ نہیں دکھایا جا سکتا۔ افتخار اج غیر معمولی کھیلا، لیکن اگر وہ اتنا تیز کھیلنے کے چکر میں وکٹ جلد گنوا بیٹھتا تو پاکستان تیس پینتیس رنز سے ہار جاتا۔ اور نیوزی لینڈ کی یہ ٹیم ایسی نہیں کہ اس سے اتنا برا ہارا جاتا۔
بابر نے میچ کے بعد کہا کہ ہم نے بیٹنگ ارڈر لچکدار رکھا اور افتخار کو اٹھویں نمبر پر بھیجا۔
بابر سے سوال پوچھنا چاہئیے کہ یہ لچکدار رویہ وہ اوپننگ کے بارے میں کیوں نہیں اپناتا؟ کسی میچ میں خود ون ڈاون یا ٹو ڈاون ا جائے اور صایم یا فخر کو اوپر کھلائے۔ایسا مگر کبھی نہیں ہو گا۔ لچکدار بیٹنگ ارڈر کے نام پر تمام تر تجربات مڈل اور لوئر ارڈر کے لئے ہوں گے۔
پہلے میچ میں شاداب نمبر پانچ پر ایا ،دوسرے میں عماد، اج پھر شاداب مگر کیوں؟
افتخار ہر لحاظ سے ان دونوں سے بہتر ہے، اسے کھلائیں۔ ویسے تو فہیم بھی شاداب اور عماد سے تکنیکی طور پر کم نہیں بلکہ شائد کچھ بہتر، اسے نمبر چھ پر کھلانا چاہئیے۔
خیر ہوم سیریز میں اور جب دو صفر کی برتری ہو تو تجربات ہو بھی سکتے ہیں،یہ اور بات کہ ان کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اج شکست کی صورت میں وہ قیمت چکائی۔
اج نسیم شاہ نے بھی اہم موقعہ پر تین گیندیں ضائع کیں۔ فہیم اوٹ ہوا تو نو گیندوں پر پندرہ چاہئیے تھے۔نسیم شاہ نے چھکے کے چکر میں تین گیندیں مس کر دیں اور یوں چھ پر پندرہ کا زیادہ مشکل ہدف بن گیا۔ نسیم شاہ کو چاہئیے تھا کہ پہلی گیند پر سنگل لینے کی کوشش کرتا کہ دوسری طرف افتخار موجود تھا جو دھواں دھار بیٹنگ کر رہا تھا۔ افتخار کو وہاں دو گیندیں مل جاتیں تو ممکن ہے چار پانچ رنز بن جاتے اور پھر اخری اوور قدرے اسان ہو جاتا۔ یہ چیزیں نوجوان نسیم کو سیکھنا ہوں گی۔ امارات میں افغان باولرز کو لگائے چھکوں کی طرح ہر بار نہیں ہوسکتا۔۔
مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے اج زیادہ غلطیاں کیں، نیوزی لینڈ کی ٹیم میں نوجوان کھلاڑی زیادہ ہیں مگر جو پانچ چھ تجربہ کار ہیں جیسے ٹام لیتھم،مچلز، نیشم، ملن، ہنری، سوڈھی ان سب نے بہت عمدہ کھیل پیش کیا اور میچ جیت کر سیریز کو لائیو بنا دیا۔ اب پاکستان کو سیریز جیتنے کے لئے اگلے دو میں سے ایک میچ لازمی جیتنا پڑے گا۔
ویل ڈن ٹیم نیوزی لینڈ۔
بیسٹ اف لک ٹیم پاکستان۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر