نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب میں انتخاب۔۔۔ بوجھیں تو جانیں!۔۔۔||عاصمہ شیرازی

پنجاب میں انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں؟ صرف ایک صوبے میں انتخابات پر ہیجان کیوں ہے اور جی ٹی روڈ کی نمائندگی کے لیے سب پریشان کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہی سب چھپا ہے؟

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیشے کے گھر میں بیٹھے ہر ہاتھ میں پتھر آ جائے تو شیشے کا گھر محفوظ کیسے رہ پائے گا۔ سنگ باری بھی ایسی کہ پتھر بھی بول اُٹھیں اور نشانہ بھی خود کو ہی بنا ڈالیں۔ معطون طعنے دیں اور الزام خود سری دکھائے۔

ہم ایسے ہی معاشرے کے باسی بن چُکے ہیں جہاں ٹوٹ پھوٹ اور شکستگی کسی طور تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ بند ہتھیلی سے ریت مسلسل پھسل رہی ہے جبکہ وقت کے تھمنے کا احساس ہی ختم نہیں ہو رہا۔

امیر خسرو شاعر اور سُخن ور تو ہیں ہی مگر اُن کے دوہوں کو بھی ملکہ حاصل ہے۔ ہمارے حالات پر خسرو کی ہر پہیلی جیسے مناسب معلوم ہوتی ہے۔

یوں سمجھیے کہ ہمارے حالات ہی پہیلی ہیں جو جیسے سمجھ لے ویسا مطلب پا لے۔

جوتا کیوں نہ پہنا

سنبوسہ کیوں نہ کھایا

جواب: تلا نہ تھا

سیاسی ماحول پر یہ دوہا چوٹ محسوس ہوتا ہے معاشی استحکام یا معاشرتی اہتمام، کوئی پختگی سرے سے دستیاب نہیں۔

انار کیوں نہ چکھا؟

وزیر کیوں نہ رکھا؟

جواب: دانا/دانہ نہ تھا

ہر روز اک نیا دن اور ہر لمحہ اک نئی کہانی ہے، روز کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے اور کچھ بننے کی کوئی نوید فی الحال نہیں۔

نئی غلطیاں کرنا اور اُن نئی غلطیوں پر پُرانی مہر لگانا، پُرانی فائلوں پر نئے فیتے لگانا، نئے فیتوں کو پُرانی تصویروں کے ساتھ چلانا ہم سے بہتر کون جانتا ہے۔

طاقتور اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹتی ہے تو عدلیہ پَر پرزے نکال سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ کسی نے گزرے چار سال میں خصوصاً اور ایک سال میں عموماً پنجاب کے ساتھ ہوئے کھلواڑ کے بارے پوچھا؟ تخت لاہور کی اقتدار کی راہداریوں میں ایسی ایسی بُزداریاں ہوئیں کہ مثال نہیں ملتی۔

باقی رہی سہی کسر گذشتہ ایک برس کی عدالتی چھیڑ چھاڑ یا یوں کہیے کہ تشریحات کی نذر ہو گئی۔ روشن پنجاب سیاسی ریشہ دوانیوں کی بھینٹ چڑھا اور ابھی تخت لاہور کی لڑائی میں جانے اور کیا ہو۔

تحریک انصاف اور ایوان انصاف دونوں پنجاب کے انتخابات پر زور دے رہے ہیں۔ آئین بھی صرف پنجاب کے لیے بنا ہے جو خیبرپختونخوا کے نوے دنوں میں انتخاب پر خاموش کھڑا ہے اور اشرافیہ کو بھی فقط پنجاب نظر آتا ہے۔

سروے ایک نمبر یا دو نمبر مگر محور صرف پنجاب۔ نبض تیز یا سُست مطلب پنجاب، ایک دوڑ ہے جو پنجاب جیتنے کے لیے لگی ہے اور سیاسی جماعتیں ہوں یا طاقتور انتظامیہ سب کے سب تخت لاہور سے بندھے ہیں۔

پنجاب پاکستان اور پاکستان کو صرف پنجاب مان لیا گیا ہے؟ دوسری اکائیاں کیا سوچ رہی ہیں؟ سندھ مردم شماری پر کتنا حساس ہے؟

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ کس قدر گھمبیر ہے؟ خیبر پختونخوا میں ریاست کی رٹ کس طرح چیلنج ہو رہی ہے؟ طاقتور اشرافیہ اس سے بے خبر فقط شہری اشرافیہ اور پنجابی ووٹر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

سپریم کورٹ

،تصویر کا ذریعہSUPREME COURT OF PAKISTAN

،تصویر کا کیپشن’طاقتور اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹتی ہے تو عدلیہ پَر پرزے نکال سامنے آ کھڑی ہوتی ہے‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں بھی وسطیٰ پنجاب ’مقبولیت‘ کے گھوڑے کو کنٹرول کر لے تو بات بن جاتی ہے۔

مقبول ترین کا ایک اضافی لاحقہ الگ استعمال کیا جا رہا ہے اور بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے افراد عوام کی مقبولیت پر ڈرائنگ رومز میں بیٹھے وہ بیانیہ دیتے ہیں جس پر خود اُن کو یقین نہ آئے۔

یہ بھی پڑھیے

آئین کی محض ایک شق پر پورے آئین کی تشریح اقتباس کو انتساب سے جوڑ رہی ہے اور انتساب کس کے نام ہے یہ سب کو معلوم ہے۔

پنجاب میں انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں؟ صرف ایک صوبے میں انتخابات پر ہیجان کیوں ہے اور جی ٹی روڈ کی نمائندگی کے لیے سب پریشان کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہی سب چھپا ہے؟

تخریب میں بھی مگر تعمیر کا پہلو ہے۔ ٹوٹ پھوٹ جس حد تک جائے گی تعمیر کی جانب بڑھے گی ویسے بھی اب ٹوٹنے کو بچا کیا ہے۔ بینچ ٹوٹ گئے، عدالت عداوت میں بدل گئی مگر نہیں بدلا تو ’چنتخب انصاف‘۔

اسٹیبلشمنٹ سے بظاہر جیتنے والے سیاست دان آخری مرحلے کے کھیل میں بھی کامیاب ہوں گے؟ آخری اوورز کا کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author