جب اسلام آباد کے باخبر صحافی بتاتے تھے کہ ہمارا سپہ سالار ایکسٹشن لینے کے چکر میں ہے یا علی آفتاب جیسے ہونہار گائیک لہک لہک کر گاتے تھے کہ ’ایکسٹنشن دے پے گئے رولے‘ تو دل نہیں مانتا تھا۔ میرا خیال تھا فوج کا ارادہ اتنا مضبوط ہی اس لیے ہے کہ میرٹ پر چلتا ہے۔
ادارے کا چیف ایکسٹنشن لے گا تو اس کے پیچھے اپنی باری کا انتظار کرتے جنرل کیا سوچیں گے اور دیکھا بھی یہی کہ مشرف سے کیانی اچھا، کیانی سے راحیل شریف بہتر، راحیل سے زیادہ سیانا باجوہ، اور ظاہر ہے باوجوہ سے جو بھی آج کل ہے۔
نام بدلتے جاؤ لیکن ڈنڈا تو بہرحال وہی ہے۔
پاکستان میں یہ اچھا اصول تھا کہ جو سپہ سالار گیا تب بس چپ کر کے گھر میں بیٹھ گیا، زندگی میں پہلا چیف جنرل ضیا الحق دیکھا تھا کہ انھیں خدا نے ریٹائرمنٹ کا موقع ہی نہیں دیا اور بائی ائیر ہی اپنے پاس بلا لیا۔ اب ان کے صاحبزادے اپنے والد کا مشن مکمل کرنے کے لیے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔
مرزا اسلم بیگ کچھ دانشور ٹائپ کے تھے ہلکی پھلکی موسیقی چلاتے رہتے تھے لیکن انھوں نے بھی اپنی یادداشتیں اپنی ریٹائرمنٹ کے 25 تیس سال بعد لکھیں۔
ان کے بعد آنے والے اتنے خاموش تھے کہ ہمیں پتا بھی نہیں کہ جہانگیر کرامت کیا کرتے ہیں، وحید کاکڑ کہاں رہتے ہیں۔ جنرل مشرف مرحوم سے اب کیا گلہ کرنا کہ وہ عقل کل تھے، اور انھوں نے ریٹائرمنٹ کا انتظار نہیں کیا۔ کمانڈو سٹائل میں اپنی آپ بیتی لکھوا ڈالی اور چھوٹے جارج بش کو اپنی کتاب کی مشہوری کے لیے بھی استعمال کیا۔ جنرل کیانی کے زمانے میں پہلی دفعہ ایکسٹنشن کا ذکر سنا۔
ایک عدد بزرگ صحافی اور دانشور سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملتے تھے، لیکن میں نے کبھی ان کے خستہ سموسوں اور ادب پر بات کرنے کے علاوہ کوئی رائے نہیں سنی۔
جنرل راحیل شریف کے آخری دنوں میں ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کے، کہ دل ابھی بھرا نہیں‘ قسم کی مہم چلائی گئی لیکن انھیں ایکسٹنشن نہیں ملی۔ لیکن ان کی ریٹائرمنٹ پر پہلی دفعہ انکشاف ہوا کہ ریٹائر ہونے والے چیف کو الوداع کہتے ہوئے قوم کتنے پلاٹ اور کتنے مربع زمین دیتی ہے۔
راحیل شریف کو 85 ایکٹر زرعی زمین بھی ملی۔ راحیل شریف صاحب نے سعودی شہزادے کی نوکری پکڑ لی اور اس کے بعد کبھی منہ نہیں کھولا۔
راحیل شریف 85 ایکڑ پر اپنے عہدے کے حلف کی لاج نبھا گئے۔ مجھے اگر کوئی آدھا ایکٹر دے دے تو ساری عمر زبان نہ کھولوں۔
جنرل باجوہ سپہ سالار تو ظاہر ہے میرٹ پر ہی بنے ہوں گے لیکن ایکسٹنشن انھوں نے ڈنڈے کے زور پر لی۔ ہمیں نہیں پتا کہ ریٹائرمنٹ پر انھیں کیا کیا ملا۔ لیکن راحیل شریف سے دگنا وقت گزرا تو کم از کم دگنا مال تو بنایا ہوگا۔
لیکن نہ یہ مال نہ ان کے عہدے کا حلف ان کا منہ بند کر پایا۔
مجھے جنرل باجوہ کے دور میں قومی سلامتی کی تھوڑی سی فکر اسی وقت ہوئی تھی جب انھوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ صبح شیو کرتے ہوئے صدیق جان کا یوٹیوب چینل سنتے ہیں۔
سوچا تھا یا اللہ یہ ہماری فوج کا جنرل ہے یا یو ٹیوبروں کا۔ اب انھوں نے ریٹائر ہوتے ہی اپنے ماتحت جرنیلوں کا نام لے کر ان پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دی ہیں۔
دنیا میں فوج کیسی بھی ہو چاہے ڈی ایچ اے بنانے والی ہماری ہو یا امریکہ کے غریب بچے اکھٹے کر کے بنائی گئی ہو۔ سب میں ایک صفت مشترک ہے کہ ساتھی فوجی زخمی ہو جائے تو گولیوں کی بارش میں بھی اسے کندھوں پر اٹھا کر محفوظ مورچے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو میدان جنگ میں آپ کے حکم پر جان دینے کو تیار ہے اس کا اتنا اعتبار تو بنتا ہی ہے۔
اللہ جنرل مشرف کی مغفرت فرمائے، انھوں نے یہ قبیح حرکت کی تھی کہ اپنے کارگل کے شہیدوں کو اپنا ماننے سے انکار کیا تھا۔ جنرل باجوہ ان سے کہیں آگے چلے گئے ہیں۔
سوچیں آپ جنرل باجوہ کی کمان میں محاذ جنگ پر جائیں، دشمن کا سامنا ہو تو جنرل باجوہ اپنے زیر کمان افسروں کی طرف اشارہ کر کے دشمن سے کہیں کہ جنگ لڑنے تو یہ آئے ہیں انھیں فائر مارو میں تو یونہی ادھر سے گزر رہا تھا۔
ہم نے فوج ملک کی حفاظت کے لیے رکھی ہوئی تھی، اب پتا نہیں اس فوج کی حفاظت کون کرے گا۔ صدیق جان کو تو ظالموں نے جیل میں ڈال دیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر