نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینے سے میرے لپٹ جاؤ مرتضیٰ||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Hug Me Murtaza
آج 18 فروری ہے، اس روز لاہور میں مقیم عالمی شہرت یافتہ آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر حیدر علی اپنے بیٹے مرتضیٰ حیدر علی کے ہمراہ ایف سی کالج پُل پہ دہشت گردیکا نشانہ بنے تھے، وہ اپنی شیعہ شناخت کے سبب زندگی سے محروم کردیے گئے تھے، اُن دونوں کا اہدافی قتل سپاہ صحابہ پاکستان کے ملک اسحاق گروپ کے لوگوں نے کیا تھا جو اپنی تنظیم کے لدھیانوی گروپ کے پنجاب کے صدر شمس معاویہ کے قتل میں بھی ملوث نکلے تھے-
یہ بہت ہی المناک واقعہ تھا جس سے متاثر ہوکر مسعود اشعر نے اپنا افسانہ ” اُس کا نام کیا تھا” لکھا جسے ایل یو بی پاک نے آن لائن کیا، سب سے پہلے وہ افسانہ آصف فرخی نے "دنیا زاد” میں شایع کیا تھا-
ڈاکٹر حیدر علی کا بیٹا پس مرگ او لیول کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوگیا تو یہ مرحلہ ایسے وقت میں آیا جب اُس کی سالگرہ بھی تھی تو ڈاکٹرحیدر علی کی بیوہ اور مرتضی حیدر کی ماں فاطمہ حیدر علی نے اپنے بیٹے کی سالگرہ پہ جو باتیں لکھیں ،پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
Hug me MURTAZA
In these last four years, I have tried to look at your photos many times but couldn’t bring myself to do it. Because only one phrase comes to my mind whenever I accidentally come across them, ‘ My last few days of life’. This year, I am able to look at your photos, thanks to a group of very special young people I met this year; Zeeshan and Salman made a beautiful pencil sketch of yours; it gave me the strength to do what I have been avoiding for four years; making eye contact with your shining bright eyes in the picture.
مرتضی مجھ سے لپٹ جاؤ،
‘ان چار سالوں میں ،میں نے کئی مرتبہ تمہاری تصویروں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ کرسکی۔کیونکہ جب کبھی اچانک سے میرا ان سے سامنا ہوتا تو ایک ہی فقرہ میرے ذہن میں آتا ،’زندگی کے میرے چند آخری دن ‘ ۔اس سال میں ایسا کرنے کی ہمت جوڑ پائی اور اس کی وجہ چند خصوصی نوجوان لوگوں سے میری ہوئی ملاقات بنی۔ذیشان اور سلمان دو نوجوانوں نے تمہارے بہت ہی خوبصورت پنسل سکیچ بنائے۔اور انھوں نے مجھے وہ کرنے کی ہمت دی جو میں کئی سالوں سے کرنے سے گریزاں تھی۔اس تصویر میں تمہاری خوب روشن آنکھوں سے اپنی آنکھوں کا ٹاکرا۔
I stopped living the moment you did. And I won’t become alive again till I meet you again one day. It is not just your loss which breaks me down; I feel like a bird feeling restless and hurt beyond words when her nest is shattered; I don’t have a unit called ‘family’ for your dear sister and I become quiet when she asks me why her family is not like those of her friends; no explanation seems satisfying enough.
میں نے جینا بند کردیا تھا جس لمحے تم نے کیا۔اور میں دربارہ جینا بھی نہیں چاہتی تب تک جب تک میں دوبارہ تم سے مل نہ لوں ایک دن۔یہ صرف تمہارا چلے جانے کا نقصان نہیں تھا جس نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔میرا دکھ اس پرندے کی طرح ہے جو اپنے گھونسلے کے بکھر جانے پہ بے چین ہوتا اور لفظوں سے بیان نہ ہونے والے دکھ کا شکار ہوتا ہے۔ہمارا خاندان تو نہیں ہے نا اب،کیونکہ میرے پاس بولنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں جب تمہاری بہن مجھ سے پوچھتی ہے کہ ہمارا گھر اس کے دوستوں جیسا کیوں نہیں ہے؟ایسی کوئی وضاحت نہیں مجھے نظر آتی جو مطمئن کرسکے۔
Today was an emotional day for many reasons; in fact the last few days have been like that; the O’levels results were announced today; I kept thinking about your classmates who would be expecting their results. For days I have been telling myself not to think about it, trying to come to terms with the ‘acceptance’ that I am expected to have after yours and Baba’s loss. But the ‘would have beens’ keep flooding my mind. Such is motherhood.
آج بہت ہی جذباتی دن ہے کئی وجوہات سے۔اصل میں گزشتہ چند دنوں سے ایسا ہی ہے۔آج ‘او لیول ‘ رزلٹ کا اعلان ہوا ہے۔میں تمہارے کلاس فیلوز بارے سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے نتائج کے منتظر ہوں گے۔کئی دنوں سے میں خود کو سمجھا رہی تھی کہ اس بارے مت سوچوں،اور جو ہوچکا اسے قبول کرلوں،ایسے قبول کرلوں جیسے تم اور تمہارے بابا کے چلے جانے کو قبول کرنے کی توقع رکھی تھی میں نے۔لیکن یہ سب تو میرے دماغ میں سیلاب کی طرح چلا آتا ہے۔ممتا ایسے ہی ہوتی ہے۔
I was at the supermarket today. When I was given three plastic shopping bags, I returned one of them and heard myself saying ‘Happy Birthday Murtaza Ji’; remembering all those times when you used to come out of a shop carrying things in your hands, refusing to take plastic bags, remembering your science lessons given by Sir Waheed. Perhaps, this is the only gift I can send you now.
My heartiest

congratulations

to all of Murtaza’s classmates who passed their O’level exams. Sending them all a big hug from me and Murtaza and wishing at the same time that I would get one from Murtaza as well.

میں آج سپر مارکیٹ میں تھی۔مجھے تین پلاسٹک شاپنگ بیگ تھمائے گئے اور ان میں سے ایک میں نے واپس کردیا اور خود کلامی کی!سالگرہ مبارک ہو مرتضی جی!میں نے ان سارے لمحات کو یاد کیا جب تم پلاسٹک شاپنگ بیگ لینے سے انکار کرتے اور چیزوں کو ہاتھ میں تھامے گھر واپس آتے،تمہیں اپنے سر وحید کے دئے سائنس کے سب اسباق یاد تھے۔شاید یہ واحد تحفہ ہے جو اب میں تمہیں دے سکتی ہوں۔میری دل کی گہرائیواں سے مرتضی کے سب ان کلاس فیلوز کو مبارکباد جنھوں نے او لیول پاس کرلیا۔ان سب کو پیار سے گلے لگاتی ہوں۔کاش ایسے مرتضی بھی میرے گلے سے لپٹ جاتا ۔
نوٹ : یہ سب نقل کرتے ہوئے میں ہر جملے پہ رویا ہوں ،بہت مشکل سے یہ سب نقل کیا اور سوچ رہا ہوں جب میرا کلیجہ منہ کو آرہا ہے تو مرتضی کی والدہ کے کلیجے کا حال کیا ہوگا؟ وہ ٹھیک کہتی ہے کہ اس نے تو اس لمحے سے جینا ہی چھوڑ دیا تھا جب تکفیری انسان دشمن ٹولے نے اس سے اس کی جان مرتضی کو چھین لیا تھا۔اے پی ایس کے شہید بچوں کی مائیں عدالتوں کے دھکے کھارہی ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی متاثرہ عورتیں 16 اگست کو مال روڈ پہ دھرنا دیں گی اور درجنوں بلوچ مائیں تو ایسی ہیں وہ رہتی ایسی جگہوں پہ ہیں کہ ان کی آوازیں ، چیخیں ہمیں سنائی ہی نہیں دیتیں۔اور کچھ اگر کئی سو میل کا سفر کرکے کراچی پریس کلب کے باہر آکر بیٹھ بھی جائیں تو کوئی سننے والا نہیں ملتا۔شریکۃ الحسین نے اپنے بھائی کی گردن پہ چلتے خنجر کو دیکھا تو اس نے بے اختیار
آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور کہا تھا
اے آسمان تو زمین پہ گر کیوں نہیں پڑتا
اور پھر مدینے کی جانب رخ کرکے کہا تھا،
اے محمد ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author