نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شعبہ صحافت کوبچاو۔۔۔ علی جان

جولوگ صحافت کے نام پرکالے دھندے کررہے ہیں ان سے معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں صحافت جیسے عظیم شعبے کی شان بڑھانہیں سکتے

کسی بھی خطے،معاشرہ یا ملک کیلئے میڈیا کو اہم مقام حاصل ہے اس لیے میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگیں میدانون میں جیتنے کی بجائے میڈیا کے ذریعے جیتی جاتی ہیں اس سے بڑھ کر یہ بات اہم ہے کہ ایماندارمیڈیا کسی بھی معاشرے کا قبلہ درست کرنے میں اہم کرداراداکرتاہے

۔اب میڈیا اخبارات سے کہیں نکل کرٹی وی انٹرنیٹ سے ہوتاہوا ایک چھوٹی سی ڈیوائس کے ذریعے ہمارے ہاتھ میں آگیا ہے تو اسکی اہمیت اور اثرات میں کہیں اضافہ ہوگیاہے اس فیلڈمیں بہت پیچھے ہونے سے اس کی اہمیت کا ادراک ناہونے یا تاخیرکی وجہ سے پاکستان دنیا کو اپنے درست موقف سے آگاہ کرنے میں ہمیشہ کمزوررہاہے کیونکہ ہمارامیڈیا اپنی سکورننگ اور پوائنٹس کی وجہ سے ایک دوسرے کو انڈیا کا ایجنٹ یا پھرملک دشمن کہتے رہتے ہیں اورحکومت تماشائی کاکرداراداکرتی رہتی ہے اگرکوئی سیاستدان انکے معاملے میں ٹانگ اڑائے تواسے جب تک عہدے سے برطرف نہ کروالیں تب تک چین سے نہیں بیٹھتے ۔

کچھ لوگ صحافت کوبدنام کرنے کیلئے اپنی بلیک منی چھپانے کیلئے اوراپنے کالے دھندے کو سیکیورکرنے کیلئے صحافت کے بورڈ لگادیتے ہیں تاکہ کوئی ذمہ دارمحکمہ ان کوتنگ نہ کرے ۔

ایک صحافی اپنے معاشرے کے خیالات کوقلمبندکرکے ملک کومعاشرے کی رہنمائی کرتاہے اگرمیری سوچ اورخیالات کاموازنہ کیاجائے تواپنے قارئین کوبتاتاچلوں کہ میں ایک صحافتی خاندان سے تعلق ہے میرے والد محترم کوصحافت میں 44سال سے زائدہوگئے ہیں میراایک بھائی الیکٹرونک میڈیااورایک پرنٹ میڈیا سے منسلک ہے میں ان کے ساتھ خبریں لکھواتاتھاابوکے ساتھ بیٹھ کے کمپیوٹرپرٹائپنگ کرتاتھاجس کی وجہ سے مجھے بھی لکھنے کاشوق ہوا۔

2012میں ہم انٹرکے امتحانات کے دوران سکول ٹرپ کے حوالے سے ابونے مضمون لکھنے کوکہاجوروزنامہ پاکستان میں پرنٹ ہواجس کے بعدلکھنے کاشوق بڑھاکیوں پہلی تحریرجب کسی قومی اخبارکی زینت بنے توخوشی توہوگی اس کے بعدکچھ وقت کی خاموشی کے بعدکالاباغ ڈیم پرلکھاتوروزنامہ آفتاب نے مستقل کالم نگارکیلئے کال کی کہ ہربدھ آپکاآرٹیکل اخبارمیں پرنٹ ہواکرے گا جومیرے لیے خوشی سے کم نہ تھا۔

اس کے بعدنہ رکنے والاسلسلہ شروع ہوااب پاکستان،سعودی عرب اورہندوستان کے اخبارات کیلئے لکھتاہوں جواچھے اندازمیں شائع ہوتے ہیں اس وجہ سے سیاسی،مذہبی،تعلیمی اورصحافتی شخصیات سے اچھے تعلقات بھی ہیں اس شعبہ نے نہ صرف مجھے بلکہ میری پوری فیملی کوصرف عزت دی ہے دولت کمانے والے کولوگ لفافہ صحافی کانام دیتے ہیں شایدوہ ہمیں بننانہیں آیا۔لفافہ صحافی سے یادآیاجولوگ صحافی برادری پرانگلی اٹھاتے ہیں ان کی انگلی اس وقت کہاں چھپ جاتی ہے جب کسی صحافی کو ماردیاجاتاہے یااسے اتناٹارچرکیاجاتاہے کہ وہ خودکشی کرنے پرمجبورہوجائے۔

جیسے پچھلے دنوں پیرمحل میں میں سٹی فوٹی ٹو کے رپورٹرعثمان حیدرپرحملہ ہوا،چارسدہ میں92نیوز کے ایک رپورٹر نے خودسوزی کرلی جس کی وجہ ڈی پی اوچارسدہ بتایاگیا،جتوئی میں ڈاکٹرعاشق ظفربھٹی کے گھرڈکیتی ،راؤجاوید،اکرم گوپانگ پرحملے جیسے واقعات ہورہے ہیں مگران میں کوئی روک تھام نہیں آئے روز صحافی مررہے ہیں اورصحافتی برادری صرف سراپہ احتجاج ہوتی ہے مگران کی سنوائی نہیں ہوتی اگرصحافی کے بجائے میڈیا مالکان پرکوئی حملہ ہوتوپولیس اسی وقت متحرک ہوجاتی ہے مگرصحافی کوئی خبربریک کرے تواس کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے جتوئی تھانے کے باہرایک عورت نے خود کوآگ لگائی تھی جس کی خبربریک کرنے پرارشادخان لغاری نمائندہ دنیانیوز پرہی الزام لگادیاگیاتھاکہ انہوں نے عورت کوآگ لگانے پراکسایا ہے اورکچھ نام کے صحافیوں نے اس بات کومان بھی لیامگراصل صحافت سے محبت اورایسے نڈرصحافی کے ساتھ کھڑے ہونے والے لوگ بھی موجود تھے جس کی وجہ سے صحافت کانام ارشاد خان نے بلندکیااورآج بھی اسی جذبے سے صحافت کررہاہے۔

جولوگ صحافت کے نام پرکالے دھندے کررہے ہیں ان سے معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں صحافت جیسے عظیم شعبے کی شان بڑھانہیں سکتے تو اس کی عزت پامال کرنے کا حق بھی نہیں میڈیا میں اتائی صحافیوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں صحافت جیسے مقدس شعبے کو غنڈہ،بھتہ خور کا نام دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا افسرعزت نہیں کرتا آج سے 20سال پہلے نظرڈالیں تو یادپڑتا ہے کہ ایک خبر سے تہلکہ مچ جاتا تھا مگر اب بیسوں اخبار خبروں سے بھرے ہوتے ہیں پر کسی محکمہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی خدارا صحافت کو بچا لو ورنہ انصاف ملنا مشکل ہوجائے گا ۔

About The Author