نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈی جی کینال حادثہ!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوٹی زیریں سے سخی سرور کو جانے والے زائرین کے ٹریکٹر ٹرالی کو ایئرپورٹ روڈ پر فوجی چھاونی کے قریب حادثہ میں50 کے لگ بھگ افراد کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ایک درجن کے لگ بھگ میتیں نکالی جا چکی ہیں۔ جبکہ باقی ابھی لا پتہ ہیں۔ حادثہ ٹریکٹر ٹرالی کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا۔ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوال اٹھتے ہیں آج تک ٹریفک قوانین کی پابندی کیوں نہیں کرائی جاتی۔ دیہاتوں میں 99 فیصد ڈرائیوروں کے پاس لائسنس نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ تربیت یافتہ ڈرائیور ہوتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ٹریفک پولیس والے ان کو روکتے ہیں تو نذرانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس حادثے کے بعد ٹریفک قوانین کی پابندی کرانا ضروری ہو چکا ہے۔ اس حادثہ کے حالات و واقعات المناک ہیں۔ حادثے کی ایک ایک وجہ پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تیز رفتار ٹریکٹر ٹرالی بے قابو ہو کر ڈی جی کینال میں جا گری۔ آرمی کی امدادی ٹیمیں ریسکیو 1122اور چوٹی پولیس، سخی سرور پولیس موقع پر پہنچ گئیں۔ بروقت امداد اچھی بات ہے مگر ریسکیو ٹیموں اور ریسکیو ٹیموں کی طرف تساہل اور محکمہ انہار کی طرف سے بے رحمی کی شکایات بھی ہیں۔ اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ حادثہ کی اطلاع ملتے ہی ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان جمیل احمد جمیل بھی موقع پر پہنچ گئے۔اُن کا یہ اقدام دیگر ضلعی افسران کیلئے قابل تقلید ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے ڈی جی کینال میں پانی کی بندش کے احکامات دیئے لیکن ڈپٹی کمشنر کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینا چاہئے کہ اُن کے حکم کے باوجود پانی کی بندش فوری نہ ہو سکی اور یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بہت سی میتیں تادم تحریر لا پتہ ہیں اور لوگ اس بات کے دکھ کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم کی طرف سے زبانی کلامی ہمدردی کے علاوہ ابھی تک لواحقین کیلئے کسی امداد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ وسیب کے لوگوں کے دل بہت مغموم ہیں ایک طرف مہنگائی اور بیروزگاری ہے دوسری طرف حادثے کا غم۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے آئے روز واقعات سے پوری قوم پریشان ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد کہا جاتا ہے کہ 7 ارب ڈالر کا اسلحہ اور سامان طالبان کے ہاتھ لگا ہے۔ یہی اسلحہ فساد کی بڑی جڑ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں۔ ملک کو کرپشن نے بہت ہی کھوکھلا کر دیا ہے۔ دو تحریریں قارئین کی نظر کرتا ہوں تاکہ اصلاح احوال کی صورت سامنے آ سکے۔ ضیاء چترالی لکھتے ہیں۔ 1960ء میں فرانس نے کانگو کو آزاد کیا۔ بعد میں اس نے اپنا سفیر وہاں تعینات کر دیا۔ ایک مرتبہ فرانسیسی سفیر صاحب شکار کی تلاش میں کانگو کے جنگلات نکل گیا۔جنگل میں چلتے چلتے سفیر کو دور سے کچھ لوگ نظر آئے۔ وہ سمجھا شاید میرے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آدم خور قبیلہ ہے۔ انہوں نے فرانسیسی سفیر کو پکڑ کر ذبح کیا۔ اس کی کڑاہی بنائی اور سفید گوشت کے خوب مزے اڑائے۔فرانس اس واقعے پر سخت برہم ہوا اور کانگو سے مطالبہ کیا کہ وہ سفیر کے ورثاء کو (کئی) ملین ڈالر خون بہا ادا کرے۔ کانگو کی حکومت سر پکڑکر بیٹھ گئی۔ خزانہ خالی تھا، ملک میں غربت و قحط سالی تھی۔ بہرحال کانگو کی حکومت نے فرانس کو ایک خط لکھا، جس کی عبارت کچھ یوں تھی کانگو کی حکومت محترم سفیر کے ساتھ پیش آئے واقعے پر سخت نادم ہے، چونکہ ہمارا ملک خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، لہٰذا غور و فکر کے بعد ہم آپ کے سامنے یہ تجویز رکھتے ہیں کہ ہمارا جو سفیر آپ کے پاس ہے، آپ بدلے میں اسے کھا لیں۔ والسلام!پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھے، جس کا مضمون کچھ یوں ہونا چاہیے۔ پچھلے پچھتر برسوں میں ہماری اشرافیہ نے جو قرضے لئے ہیں، وہ آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں، ہم آپ کے قرضے تو واپس نہی کر سکتے۔ لہٰذا گزارش ہے کہ ہماری اشرافیہ کے بینک بیلنس، اثاثے اور بچے مغربی ممالک میں ہیں، بدلے میں آپ وہ رکھ لیں۔ ایک تحریر میں عاشر عظیم لکھتے ہیں کہ جو بھی پاکستان کو سنوارنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے لئے پاکستان کی سر زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ میرا نام عاشر عظیم ہے! میں کرسچن کمیونٹی کا ایک فرد تھا، میں نے پی ٹی وی کے مشہور ڈرامہ سیریل دھواں میں اظہر کے نام سے مرکزی کردار ادا کیا! سی ایس ایس کرکے کسٹم میں افسر بنا، رشوت ستانی کا بازار گرم تھا، کسٹم حکام کو مشورہ دیا کہ رشوت ختم کریں۔ چیئرمین نے مجھے نظام تیار کرنے کا حکم دیا، میں دن رات ایک کر کے ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہوا جس سے رشوت کے راستے بند ہو سکتے تھے! محکمہ کے افسران میرے دشمن بن گئے، نیب کے ذریعے مجھے گرفتارکر لیا گیا، مجھ پر ناجائز کمائی کا الزام لگا اور حساب لیا جاتا رہا، پھر جیل سے رہا ہو گیا۔ میں بضد تھا کہ اپنی بیگناہی ثابت کروں گا اور بحال ہو کر دم لوں گا، بااثر افسران کا خیال تھا کہ رہائی کے بعد میں بھی ملک سے بھاگ جائوں گا جب ایسا نہ ہوا تو میرے اوپر غداری کے مقدمات اور دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے رابطے کے الزامات لگا دیئے گئے اور پھر گرفتار کر لیا گیا، اس کیس میں سے بھی کچھ نہ نکلا اور میں رہا ہو گیا۔ میں نے قرض لے کر ایک فلم‘‘مالک’’بنائی جس میں پاکستان کی اشرافیہ،بیورو کریسی، کرپٹ نظام کو للکارا، اس فلم کی نمائش نہ ہونے دی گئی اور میرا سرمایہ ڈوب گیا، آخرکار وہ دن بھی آگیا جب میرے اوپر لگنے والے تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے اور میں کئی برسوں بعد اپنے عہدے پر بحال ہوا۔ میں خودکو بیگناہ ثابت کرنا چاہتا تھا اور کامیاب ہو گیا لیکن اس قوم کی مزید خدمت کی ہمت نہیں تھی، بحالی کے چار دن بعد اپنے عہدے سے استعفی دیا اور خاندان سمیت کینیڈا منتقل ہو گیا۔ آج کل میں کینیڈا میں ٹرک چلا کر اپنی فیملی کی کفالت کرنے اور مالک فلم بنانے کے لیے لیا گیا قرض اتارنے میں مصروف ہوںلیکن پاکستان سے آج بھی اتنا ہی پیار کرتا ہوں۔اس طرح کے بہت لوگ ہیں لیکن مجبور ہیں۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author