وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلارا زیٹکن ایک جرمن مارکسسٹ دانشور اور خواتین کی حقوقی جدوجہد کو عالمی سطح پر منظم کرنے کی تحریک کی دائی تھیں۔
یہ مضمون ایک کوشش ہے اس قد آور شخِصیت کے مجسمے سے وقت کی گرد جھاڑنے کی جس نے اپنی زندگی کو مساوات کے خواب کی تعبیر تلاش کرنے کے سفر میں تجسیم کر دیا اور ترکے میں اپنے اور آنے والے زمانے کی خواتین کے لیے آٹھ مارچ کی تاریخ چھوڑی۔
کلارا جوزفین آئزنر زیٹکن جرمن صوبے سیکسنی کے دیہی علاقے کے ایک گرجا گھر میں عباداتی ساز بجانے والے ایک پروٹسٹنٹ اسکول ماسٹر گوٹفرائیڈ آئیزنر کے ہاں پانچ جولائی اٹھارہ سو ستاون کو پیدا ہوئیں۔
کچھ عرصے بعد ان کا خاندان لائپزگ کے صنعتی شہر میں منتقل ہو گیا اور کلارا نے اسکول جانا شروع کر دیا۔اوائل عمری میں ہی ان کا رابطہ جرمن سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم برائے اطفال سے ہو گیا۔
اس زمانے میں جرمنی پر سخت گیر بسمارک کی آمریت تھی اور سوشلسٹوں کو سرکاری طور پر مضرِ صحت سمجھا جاتا تھا۔چنانچہ کلارا تعلیم جاری رکھنے کے لیے سوئس شہر زیورخ منتقل ہو گئیں اور وہاں سے پیرس چلی گئیں۔
رفتہ رفتہ صحافت سے منسلک ہوگئیں اور ترجمے کا جزوقتی کام بھی شروع کر دیا۔ساتھ ہی ساتھ سوشلسٹ حلقوں کے ساتھ قریبی ربط بھی برقرار رہا اور اس دوران بائیں بازو کے ایک جلاوطن روسی کارکن اوسپ زیٹکن سے شادی کی۔
ان سے کلارا کے دو بیٹے ہوئے۔اٹھارہ سو نواسی میں اوسپ زیٹکن کا انتقال ہو گیا۔ کلارا نے بعد ازاں دوسری شادی کی مگر زیٹکن کی کنیت نام کے ساتھ ہمیشہ برقرار رکھی۔
لگ بھگ دس برس بیرونِ ملک رہنے کے بعد کلارا جرمنی واپس آئیں اور اٹھارہ سو اکیانوے میں ایس پی ڈی کے مجلہ برائے خواتین کی ادارت سنبھال لی اور اگلے پچیس برس تک وہ دائی گلیخت ( مساوات ) نامی اس پرچے کی مدیر رہیں۔
اس دوران معروف کیمونسٹ ایکٹوسٹ روزا لگزمبرگ سے ان کی دوستی ہوئی اور یہ تعلق اگلے کئی برس برقرار رہا۔اگست دو ہزار دس میں کلارا نے کوپن ہیگن میں سیکنڈ سوشلسٹ انٹرنیشنل کے انعقاد کے ساتھ ساتھ پہلی عالمی خواتین کانفرنس کی داغ بیل ڈالی۔اس میں سترہ ممالک کی ایک سو خواتین مندوبین نے شرکت کی۔
اس کانفرنس میں پہلی بار ووٹ کے حق سمیت صنفی حقوق کے حصول کی جدوجہد کو منظم انداز میں آگے بڑھانے اور انیس مارچ کو یومِ خواتین کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا۔اگلے برس یومِ خواتین پہلی بار آسٹریا ، ڈنمارک ، جرمنی اور سوئٹزرز لینڈ میں منایا گیا اور تقریبات میں لگ بھگ دس لاکھ خواتین و حضرات نے شرکت کی۔
البتہ کلارا زیٹکن بورژوا فیمینزم کی مخالف تھیں اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ اس طرح کی تحریک سے محنت کش خواتین کو درپیش حقیقی مسائل سے توجہ بٹتی ہے اور خالی خولی نعرے بازی سے عدم مساوات کی اصل جڑ یعنی بلاتفریق ِ جنس استحصال کی جڑیں کمزور نہیں کی جا سکتیں۔
خواتین کی بااختیاری سماج کے پچھڑے اور استحصال کے شکار طبقات کی بااختیاری کی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔بورژوا طبقے کی خواتین اپنی تمام تر خوش نئیتی کے باوجود اس جدوجہد میں وہ موثر اجتماعی کردار نبھانے سے قاصر ہیں جو بااختیاری کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے۔
کلارا زیٹکن اور ان کے ہمجولیوں نے اسی نظریے کی بنیاد پر پہلی عالمی جنگ کی بھی مخالفت کی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ موت کے سوداگروں کی تجوریوں کا کھیل ہے جس میں دونوں جانب کے محنت کش محض چارہ بن رہے ہیں۔
کلارا ، روزا لگزمبرگ اور دیگر رہنماؤں نے اپنی جماعت ایس پی ڈی کی یہ پالیسی بھی مسترد کر دی کہ جنگ کے خاتمے تک صنعتی ہڑتال کا حق معطل ہو سکتا ہے۔
انیس سو پندرہ میں کلارا اور ان کے ساتھیوں نے برلن میں جنگ مخالف عالمی خواتین کانفرنس منعقد کی اور اس کی پاداش میں انھیں حراست میں لے لیا گیا۔
انیس سو سترہ میں ایس پی ڈی دو دھڑوں میں بٹ گئی اور دو برس بعد انیس سو انیس میں کلارا زیٹکن والے دھڑے نے جرمن کیمونسٹ پارٹی (کے پی ڈی ) کی بنیاد رکھی۔جون انیس سو اکیس میں خواتین کی سیکنڈ انٹرنیشنل ماسکو میں کلارا کی زیرِصدارت منعقد ہوئی اور اس کانفرنس میں خواتین کا عالمی دن ہر سال آٹھ مارچ کو منانے کا فیصلہ ہوا۔
انیس سو اٹھائیس میں جب ماسکو کی پارٹی قیادت نے جرمن کیمونسٹ پارٹی کو جرمن سوشلسٹ ٹریڈ یونین اتحاد سے الگ ہو کے اپنا ایک علیحدہ اتحاد بنانے کا حکم دیا تو جرمن کیمونسٹ پارٹی کی بیشتر قیادت نے اسے تسلیم کر لیا مگر کلارا اور تین دیگر کامریڈز نے یہ حکم مسترد کر دیا۔ان کا موقف تھا کہ پارٹی کے فیصلے باہر سے مسلط ہونے کے بجائے مقامی طور پر ہونے چاہیں۔
انیس سو بتیس میں نئی جرمن پارلیمان میں جو تین کیمونسٹ رکن منتحب ہوئے کلارا ان میں سے ایک تھیں۔دراصل انیس سو بیس کے بعد سے کلارا ہر پارلیمنٹ کی رکن رہیں۔
انھوں نے ہٹلر کی نازی پارٹی ( نیشنل سوشلسٹ ) کی فسطائی سوچ کی کھل کے مخالفت کی۔اور بائیں بازو کی جماعتوں کو خبردار کیا کہ اگر انھوں نے ایک اتحاد نہ بنایا تو کچھ ہی عرصے میں فسطائیت ان کا دائرہِ حیات تنگ کر دے گی۔
وہی ہوا۔جب انیس سو تینتیس میں نازی پارٹی نے زور زبردستی کر کے حکومت سنبھالی تو ایک ایک کر کے مخالفین کا یہ تو صفایا کیا جانے لگا یا پھر انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔کلارا کو بھی ماسکو جانا پڑا۔ چند ماہ بعد ہی بیس جون انیس سو تینتیس کو پچھتر برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ان کی آخری رسومات میں ولادی میر لینن کی بیوہ نہزادہ کروپسکایا اور اسٹالن نے بھی شرکت کی۔
انیس سو انچاس میں جب عوامی جمہوریہ جرمنی ( مشرقی جرمنی ) قائم ہوئی تو ہر شہر میں ایک شاہراہ کا نام کلارا زیٹکن کے نام پر رکھا گیا۔
متعدد مقامات پر ان کے مجسمے نصب ہوئے اور کئی پارک ان کے نام سے منسوب ہوئے۔دس مارک کے کرنسی نوٹ اور بیس مارک کے سکے پر کلارا کی تصویر کندہ ہوئی۔ان کے نام پر کلارا زیٹکن میڈل کا اجرا ہوا۔ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے۔
انیس سو نواسی میں جب مشرقی جرمنی تحلیل ہو گیا تو کلارا زیٹکن کا نام بھی نئی تاریخ کی گیلریوں میں چھپ گیا۔ہر سال آٹھ مارچ تو منایا جاتا ہے مگر آج کلارا زیٹکن کو کتنے لوگ اور ایکٹوسٹ جانتے ہیں؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر