نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان ایکسپریس اور وطن پرست ڈرائیور!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عدالتوں پر حملہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان مسلح اور مشتعل تھے اور جتھے کے ساتھ عدالت میں آئے اور چڑھائی کر دی۔ ملکی ابتر سیاسی و معاشی صورتحال کے پیش نظر لڑائی جھگڑے نہیں افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ اقتدار کی جنگ میں عام آدمی کچلا جا رہا ہے اور ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ توانائی کے بحران سے بیشتر صنعتیں بند اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔ محکمہ شماریات کے مطابق جولائی 2022ء تا فروری 2023ء مہنگائی کی شرح 26.19 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ عام آدمی کا نہ صرف گزر بسر بلکہ جینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ دوسری طرف حکومتی رہنما مخدوم احمد محمود کا کہنا ہے کہ میرا بس چلے تو پٹرول 500 روپے لیٹر اور بجلی کا فی یونٹ 100 روپے کا کر دوں۔ یہ سب کچھ غریبوں کے ساتھ مذاق ہی نہیں ظلم بھی ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں 90 دن میں لازمی الیکشن کا فیصلہ دیا ہے۔ مگرمحسوس یہی ہوتا ہے کہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا گیا اور الیکشن بھی اس سال ہوتے نظیر نہیں آ رہے۔ دوباتیں ہیں آئین کہتا ہے اسمبلی کی تحلیل کے بعد90دن میں الیکشن کرانا اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ضروری ہے ۔ مگراس معاملے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا ۔۔یہ فیصلے پی ڈی ایم کے خلاف ہیں ، وہ نہیں مان رہے ۔ اس سے پہلے عمران خان کے خلاف رات کے بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں اور فیصلے دئیے گئے ۔ تحریک انصاف نے ان فیصلوں کے خلاف اسی طرح شور و غوغا کیا جس طرح کے آج مریم نواز اور پی ڈی ایم کی دیگر قیادت کر رہی ہے ۔ یہ سارا کھیل کرسی اور اقتدار کا ہے ۔پاکستان اور عوام کیلئے کوئی کچھ نہیں کر رہا۔جو جتنا کمزور ہے اتنا مر رہا ہے ۔پاکستان میں بسنے والوںمیں سب سے زیادہ کمزور حالت وسیب کی ہے۔ وسیب کے نوجوان کو سوچنا ہوگا کہ اقتدار پرستوں کو اقتدار کی جنگ سے فرصت نہیں ۔ان کیا بنے گا؟ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کرکے کہا کہ ہم نازی جنگ ہار چکے ہیں۔ فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ہم کو دوبارہ فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے۔ اس لیے میرا حکم ہے کہ پیرس کے عجائب گھروں، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ہوئے پیرس کے علاوہ کچھ نہ ملے۔ جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالر کے نوادرات اٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونالیزا تھی۔ وین گوہ کی تصویریں، وینس ڈی ملوکامرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا۔ جب عجائب گھر خالی ہو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کاحکم دیا۔ ٹرین روانہ تو ہو گئی لیکن شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہو گیا۔ انجینئر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن دس کلو میٹر طے کرنے بعد اس کے پہئے جام ہو گئے۔ انجینئر آئے، مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن چند کلو میٹر بعد بوائلر پھٹ گیا۔ انجینئر آئے بوائلر مرمت ہوا اور ٹرین پھر چل پڑی، ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے، انجینئر آئے پسٹن مرمت ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی۔ میرے پیارو! ٹرین خراب ہوتی رہی اور جرمن انجینئر اسے ٹھیک کرتے رہے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حدود میں ہی رہی۔ ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ موسیو بہت شکریہ لیکن اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی۔ ڈرائیور نے مکے ہوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ہو گیا۔ جب وہ پیرس پہنچا تو فرانس کی ساری لیڈر شپ اس کے استقبال کیلئے کھڑی تھی۔ لوگوں کا جم غفیر تھا لوگ عقیدت اور محبت سے ڈرائیور کو مل رہے تھے کوئی اُس کا ہاتھ چوم رہا تھا ، بزرگ اس کو دعائیں دے رہے تھے، نوجوان جذبات سے اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ عجب دید نی منظر تھا۔ ایک ماحول بن گیا تھا، ایک سماع تھا، اسی اثناء میں ڈرائیور پر گل پاشی کی گئی پھر اس کے ہاتھ میں مائیک دے دیا گیا۔ ڈرائیور بولا جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیئے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ہے اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی۔ یہ ہوتی ہے وطن سے محبت، دھرتی سے محبت اور اپنی قوم سے محبت۔ محبت کرنے والے ہر انسان سے محبت ہونی چاہئے اور کتنی بڑی بات ہے کہ عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر دی ٹرین فلم بنائی اور ڈرائیور کو فلم کے ذریعے شاندار خراج عقیدت پیش کرکے اسے امر کر دیا گیا۔ میری گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی دی ٹرین کی سٹوری سے کم نہیں، کبھی انجن فیل ہو جاتا ہے کبھی پہیہ جام، کبھی پسٹن پھٹ جاتا ہے تو کبھی بوائلر، پہلے دن سے اب تک بحران ہی بحران ہیں۔ اس ٹرین کا ڈرائیور اصل میں کوئی اور ہے جو اس کو منزل تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ ہم سب کو مل کر اس ڈرائیور کو ڈھونڈنا ہے اور پاکستان ایکسپریس کیلئے ملک و قوم کو ایسے ڈرائیور کی ضرورت ہے جو اپنے ملک سے محبت کرتا ہوں، اپنی مٹی سے محبت کرتا ہو، پاکستانی قوم سے محبت کرتا ہو، غریبوں سے محبت کرتا ہو، غریبوں کا ہمدرد اور غمگسار ہو، ایسا ڈرائیور نہیں چاہئے جو غیروں کے اشارے پر چلتا ہو اور دوسروں کا ایجنٹ ہو۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author