یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتھر کے بعد دنیا کی سب سے پائیدار چیز کتاب ہے، مگر پتھر بھی وہی پائیدار اور ابلاغ کرنے والے ہیں جو کوئی تحریر یا نقوش لیے ہوئے ہیں۔ کوئی نقشین لوح ہمالیہ کے مقابلے میں زیادہ وقعت رکھتی ہے کیونکہ وہ فطرت سے توڑ کر علیحدہ کر لی گئی ہوتی ہے۔ پتھر کا وہ ٹکڑا انسانی بن جاتا ہے۔
جب آپ جنگل میں یا جنگلی طور پر اُگے ہوئے کسی پودے کی گاچی کر کے ساتھ لے آتے اور پالتے ہیں تو وہ آپ کے تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔ کوئی سوسن، گلاب، گیندا، وغیرہ فطرت کا حصہ نہیں۔ پالتو بنائے گئے جانور بھی فطری نہیں رہے۔ ورنہ گایوں بھینسوں کے تھن دو ہزار سال پہلے کہاں اتنے بڑے ہوتے تھے۔ چڑیوں کو کہاں بجلی کے کھمبوں پر گھونسلے بنانا معلوم تھا۔
لفظ بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ سدھائے ہوئے جانور ہیں۔ وہ کتاب میں رہتے ہیں۔ ہم نے جہاں ڈی ایچ ایز بنانے کے خبط میں طوطوں سے پیڑ چھین لیے، وہاں کتابوں کو بھی درختوں کی طرح کاٹ کاٹ پر پھینک رہے ہیں۔ کسی پالیسی ساز نے کبھی غور کیا ہے کہ ایسا ہوتا رہا تو لفظ کہاں رہیں گے؟ لفظ کے بغیر تہذیب صرف گالی ہو گی۔ شاید ہمارے ہاں اب صرف گالی ہی رجسٹر ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر