مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آباد ہوئے، برباد ہوئے۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی اکبر ناطق اور میں دو قطعی مختلف طرح کے لوگ ہیں۔ اُس کا پس منظر دیہی ہے، اور میں زندگی میں شاید ہی کبھی متواتر ایک ہفتے سے زائد عرصہ گاؤں میں رہا۔ اُس کے لوگ گاؤں سے تعلق رکھنے والے ہیں، اور جن لوگوں کو میں جانتا ہوں اُن میں زیادہ تر شہری ہیں۔ زراعت پیشہ کرداروں کے ساتھ میرا کبھی براہِ راست تعلق واسطہ نہیں رہا، اور ناطق نے اُن کے درمیان زندگی گزاری ہے،ا ور شاید اب بھی گزار رہا ہے۔ وہ شعر کہتا ہے، اور میں شاعروں کا ناپسندیدہ ہوں۔ اِس کے علاوہ میں پی ٹی آئی کا شدید مخالف بھی ہوں۔ ناطق فکشن کا آدمی ہے اور اِتنا مقبول زندہ ادیب ہے کہ اُس سے اکٹھی چار چار کتابیں دستخط کرواتے ہوئے قارئین کو دیکھ کر کوئی بھی ’عظیم‘ تجریدیت پسند ادیب بہ آسانی حسد کا شکار ہو سکتا ہے۔
پہلی بار ناطق سے ملاقات یا آمنا سامنا ہوا تو وہ حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد میں کسی مصرعے میں الف گرنے یا نہ گرنے جیسے کسی مسئلے پر دعوتِ مبازرت دے اور قبول کر رہا تھا۔ میرے لیے یہ شعبہ آج بھی اُتنا ہی مبہم اور ناقابلِ فہم ہے جتنا اُس وقت تھا۔ پھر ایک بار اسلام آباد میں ہی کسی تقریب دوران ہال سے باہر نکل کر یوسف حسن کے سنگ سیگریٹ پیتے ہوئے اُس کے ساتھ تھوڑا مکالمہ ہوا۔
پھر ایک دو بار کہیں نہ کہیں ٹاکرا ہوا جو نہ خوشگوار تھا نہ ناخوشگوار۔ بس ہم ملے، اپنے اپنے تعصبات سانجھے کیے اور کبھی کہیں ملنے کی خواہش ظاہر کر کے علیحدہ ہوئے، البتہ کبھی باقاعدہ ملاقات کی کوشش دونوں طرف سے نہ ہوئی۔ اب پہلی بار بُک فیئر کے موقعے پر اُسے کینو کھاتے دیکھنے سے لے کر اپنے قارئین کے ساتھ اِنٹر ایکشن کرتے ہوئے سننے اور دیکھنے کا موقعہ بھی ملا، جو میرے طریقۂ کار سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن آپس میں گفتگو کے دوران ایک مماثلت یہ تھی کہ ہم دونوں بہت قطعی آرأ رکھتے ہیں اور بہت کم لوگوں کے مشتاق ہیں۔ شاید یہ سنکی پن ناقص ادیبوں کی بڑی بڑی محفلوں اور باہمی عزت افزائیوں سے کراہت کا اپنا اپنا ردعمل ہو۔ معلوم نہیں۔
یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ علی اکبر ناطق کے قارئین اُس کے پرستار بھی ہیں اور بغلوں میں ٹی وی کی بیساکھیاں رکھ کر یا جھوٹی بابا پرستی کے ذریعے ادب تخلیق کرنے والوں کے مقابلے میں کم یا مساوی سہی مگر زیادہ پرجوش ہیں۔
بُک کارنر نے ہم دونوں کی آپ بیتیاں شائع کی ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں بُک سٹال پر تین دن سے گھنٹوں اکٹھے بیٹھ رہے ہیں۔ بہت سے قارئین ان دونوں کتابوں میں زندگی کے شاید دو قطعی مختلف نقطۂ نظر جانچ سکیں گے۔ وہ کتاب کہانی پڑھ رہا ہے اور میں نے آباد ہوئے برباد ہوئے ابھی پڑھنا شروع کی ہے، تیس چالیس صفحات ہی پڑھ پایا ہوں۔ میری رائے اچھی ہے، البتہ اتنے کم صفحات پڑھنے کے بعد اِسے ’’رائے‘‘ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔ جب پڑھ لوں گا تو تفصیل سے رائے دوں گا جو یقیناً مثبت ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: