یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونہی پنجابی کی کسی تحریر پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ کسی اور علاقے کے کسی لکھاری نے لکھی ہوتی تو اِس کا لہجہ ہی مختلف ہوتا۔ حتیٰ کہ املا بھی فرق ہو جاتا۔ شاید اِس کی وجہ کوئی سٹینڈرڈ یا معیاری رسم الخط اور ذخیرۂ الفاظ نہ ہونا ہے۔ یا پھر بجھی ہوئی شناخت کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی شناختوں پر زور۔
لیکن اُردو میں زیادہ تر ادیب اور شاعر تقریباً ایک جیسی زبان لکھتے ہیں۔ اور اُن میں ایک اور چیز بھی کافی مشترک ہے: تعلی، ڈینگ بازی، لاف زنی، شیخی بگھارنا، اور جھوٹ۔ دوسرے وہ پنجاب کے اردو والوں سے بھی بیر اور تعصب بھی رکھتے ہیں۔ بلکہ موقع ملے اور کوئی پنجابی لکھنے والا ہاتھ لگ جائے تو سرپرستی کر کے اُس کا تخم ہی مار دیتے ہیں۔
ان کی زبان کے ساتھ پائجاما، پان بھی تعصب اور ڈینگوں کی طرح ساتھ آتے ہیں، جیسے پنجابی کے ساتھ سکھ۔ یقیناً متعدد پنجابیوں میں بھی یہ مرض پایا جاتا ہے، لیکن وہ اپنے جھوٹ کا پول بھی خود ہی کھول جاتے ہیں۔ اردو والے بہت پکے ہیں، ان کا تفاخر بے جا نہیں۔
تصور کریں کہ افغانستان سندھ کا تابع بن جائے یا سندھی لوگ جا کر افغانستان میں بسیں اور وہاں سندھی لاگو ہو چکی ہو۔ اب باہر سے آئے ہوؤں کی زبان فاتح اور ’’مہذب‘‘ قرار پائے گی، ہر چیز سرخ اور نیلے رنگ کے اجرکی ڈیزائنوں سے بھر جائے گی، وہ اپنے دریاؤں کے قصے گائیں گے اور افغانستان کے کوہ و دمن کو گالی دیں گے۔ جب وہ ڈینگ ماریں گے تو سننے والوں کو پتا بھی نہیں چلے گا۔
انور مقصود صاحب کا خفتہ یوتھیا ہونے کا پتا چلے تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ کبھی ایم کیو ایم کے متعلق کوئی بات نہیں کریں گے، کیونکہ وہ اُن کی سپورٹ بیس ہے۔ یہ بہت اچھے اداکار اور مزاحیہ ڈراما نگار سہی، مگر مارشل لاؤں کے بینفشری ہیں۔ اتفاق سے اِن کا پورا خاندان بینفشری رہا ہے۔ کسی نے ٹوٹکے سکھائے اور خواہ مخواہ مرچوں والے کھانے پکانے کی ترکیبیں بتانے کا کیریئر بنایا، کسی نے شاعری شروع کر دی، کوئی ڈرامے لکھنے لگا۔ اور یاد رہے کہ اِن کا اتحاد بھی بہت تگڑا ہوتا ہے۔
اس ویڈیو میں انور مقصود صاحب ہمارے ایک ڈراما نگار پنجابی شاعر کی طرح سراسر جھوٹ بولتے جا رہے ہیں۔ ویسے ایک بات ہے کہ وہ گفتگو سے ماحول بنا دیتے ہیں۔ پنجابی سقراط کی طرح نہ لکھنے والے ہیں اور اردوئی چٹخارے دار خطیب۔ حتمی تجزیے میں محفل باز ہی فتح مند ہوتا ہے، بالخصوص جب آپ محفل والوں پر ہجرت کا احسان بھی رکھتے ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر