یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان بڑی ظالم چیز ہے۔ آپ اگر اسے استعمال نہیں کرتے رہیں گے، اس میں علم اور نثر تخلیق نہیں کریں گے تو یہ غیر فعال ہو جائے گی، محض بولی بن کر رہ جائے گی۔ پنجابی میں ہمارے پاس نثر کی روایت بہت کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا جب ہم پنجابی کو آج کل کی اصطلاح میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کافی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
کچھ دن میں ماں بولی دیہاڑ کانفرنس منعقد ہو گئی ہے جس کے پمفلٹ پر تھوڑا غور کرنا بنتا ہے۔ ایک تو پتا نہیں کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ پنجابی کی یا پنجابی میں بات کرنی ہے تو بس دیہاتی لب و لہجہ لازمی ہے۔ آپ نستعلیق خط سے بھی گریز کرتے ہیں، کہ اُردو سے مشابہت نہ رہے۔ سب بڑی گڑبڑ جو پیدا ہوتی ہے وہ انگلش اصطلاحات کا ترجمہ ہے۔ مُڈھلا اکٹھ افتتاحی خطاب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جی آیاں نوں، پھر لخت پاشا: حیاتی تے سماج اُساری جو life and work کا ترجمہ یا متبادل ہے۔ اُس کے نیچے کلیدی گل کتھ keynote address ہے۔ پردھانگی صدرات ہوتی ہے، لیکن پریذیڈنشل ایڈریس کے لیے پردھانگی استعمال کیا گیا۔ پچھ دس کا مطلب ویسے تفتیش ہے لیکن اسے سوال جواب کا متبادل بنایا گیا۔
سروس سیکٹر کے لیے ’’چاکری،‘‘ اور انڈسٹریل سیکٹر کے لیے ’’کسبی ٹولیاں‘‘ برتا گیا ہے، جبکہ انفارمل سیکٹر کی مصیبت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پھر ’’ماحولیاتی بحران،‘‘ ماڈریٹر وغیرہ کے متبادل ہمارے پاس موجود نہیں۔
صورت حال اُس وقت زیادہ عجیب اور نازک ہو جاتی ہے جب آپ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا پنجابی کا پرچہ دیکھتے ہیں۔ پرچے میں ’’سوالاں دے جواب‘‘ مانگے گئے ہیں، پھر سوال نمبر دو میں ’’پنجابی کتھا دا ڈھیر گوڑھا احاطہ کرو‘‘ کہا گیا ہے جو تفصیل سے بیان کریں کا ترجمہ لگتا ہے۔ سوال نمبر تین میں ’’روشنی ہیٹھ واضح کرو‘‘ اور سوال نمبر پانچ میں ’’حقیقت پسندی دے عناصر شعری مثالاں راہیں واضح کرو۔‘‘ سوال نمبر سات میں ’’ٹچکر ڈھنگ‘‘ شاید مزاحیہ پہلو کا ترجمہ ہے، حالانکہ ٹچکر طنز ہوتا ہے۔ یہ کچھ مضحکہ خیز سی صورت حال ہے۔ (مزے کی بات یہ ہے کہ پرچے کی ہدایات انگلش میں ہیں، تاکہ پنجابی کا پیپر دینے والوں کو آسانی سے سمجھ آ جائیں)۔
پنجابی نثر میں کام کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ اور یہ کام ترجمہ ہے۔ یہ تضادات وغیرہ میں خوشی سے نہیں بلکہ ایک سٹپٹاہٹ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر