حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسمت سے ہم لوگ بہت زیادہ لڑتے ہیں۔ جب تھک ہار جاتے ہیں تو اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کے سر جھکا لیتے ہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ جو اوپر والے کی مرضی۔
اسے رضا مندی یا صبر کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر حال میں راضی رہنے والا انسان اچھا سمجھا جاتا ہے۔
جدھر اپنا زور چل جاتا ہے ادھر ہم کسی دوسرے کی رضا کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ وہ ماتحت ہو، شاگرد ہو، سڑک پہ کوئی پیدل چلتا انسان ہو، پرندہ جانور ہو یا کوئی عورت ہو۔
راضی ہونے کا مطلب سمجھتے ہیں؟ اجازت ملنا کہ آپ فلاں کام کر سکتے ہیں۔ قانون، انسانیت، اخلاقیات، سب ہمیں یہی سکھاتے ہیں لیکن معاشرہ نہیں سکھاتا۔ عورت کے معاملے میں ہمارے بزرگوں نے ہمیں نہیں سکھایا کہ اس کی رضا، اس کی مرضی کیا ہوتی ہے۔
ہمیں سکھایا گیا کہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے۔
خاموشی نیم رضا مندی نہیں ہوتی، یہ صبر ہوتا ہے۔ یہ وہ والی چپ ہوتی ہے جو آپ تقدیر کے فیصلے پر سادھ لیتے ہیں، سر جھکا دیتے ہیں۔
دو دوز پہلے میرے دوست کی شریک حیات اپنے محلے میں اپنی گلی میں اپنے گھر کے سامنے تھیں کہ ان سے ایک بائیکیا والے نے دراز دستی کرنے کی کوشش کی۔ اسے سادہ لفظوں میں جنسی ہراسانی کہا جاتا ہے۔
دوست نے پولیس سے رابطہ کیا، سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی، بائیکیا سے رابطہ کیا، ملزم تک وہ جلد پہنچ جائے گا۔
اس کے ٹویٹ پہ میں نے لکھا کہ ‘ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا، کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔’ پھر سوچا کہ لکھا جا سکتا ہے، شاید کسی ایک کے پلے پڑ جائے۔
یہ ایسا کیس تھا جس میں خود مرد نے قانونی طریقے سے ملزم کو پکڑنے کے لیے کوشش کی۔ ہر روز ہر گلی میں ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں۔ بچیاں نہیں بولتیں۔ باپ، بھائی، شوہر یا کوئی بھی مرد پہلے ان کا باہر نکلنا بند کرتے ہیں، بندے تک بعد میں پہنچتے ہیں۔
جو لڑکیاں اکیلی رہتی ہیں وہ اس لیے کچھ نہیں کرتیں کہ جدھر بھی جائیں گی ہر قدم کی یہی قیمت الگ سے چکانی پڑے گی۔ وہ تھک جاتی ہیں، عورت نہ ہونے کی دعا مانگتی ہیں اور اپنی بچیوں کو اسی تجربے کی وجہ سے بعض دفعہ کالج یونیورسٹی تک نہیں بھیجتیں۔
ہم لوگ کچھ کام خود سیکھ سکتے ہیں۔ جیسے آپ کسی بھی خاتون سے بات کر رہے ہیں تو کوشش کریں کہ نظریں چہرے پہ رہیں۔ سینے یا جسم پہ نظریں دوڑانے سے آپ کے اندر تو کیا ٹھنڈ پڑنی ہے، عورت باقاعدہ ‘غیر رضا مند’ یا ہراسانی محسوس کرتی ہے۔ ہم لوگ روزانہ ایسے کئی کیس اپنی آنکھوں سے پیدا کر لیتے ہیں، قانون میں اس کی سزا بھی کوئی نہیں، لیکن عورت کے لیے کیا یہ ایک سزا نہیں؟ آپ مرد کولیگ سے بات کرتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھتے ہیں یا کہیں اور؟
اور آپ اگر مرد ہیں تو بچپن میں کسی نے کبھی بھی آپ کو ہراساں نہیں کیا؟ کیسا محسوس ہوتا تھا؟
رضامندی یا انگریزی میں کانسینٹ، کوئی ایسا پیچیدہ موضوع نہیں ہے۔ سوچیں۔
مرد ہوتے ہوئے کیا آپ چاہیں گے کہ باس آپ کو جنسی تجربے کے بعد ترقی دے؟
کیا آپ چاہیں گے کہ ماڈل ہونے کے لیے آپ کا راستہ انڈسٹری کے بادشاہوں کی رہائش گاہ سے نکلتا ہو؟
کیا آپ چاہیں گے کہ شریک حیات کسی بھی وقت آپ کو بستر میں گھسیٹ لیں اور کسی بھی وجہ سے آپ کا موڈ نہ ہونے کے باوجود آپ سے زبردستی چپکا جائے یا باقی وظیفے پورے کیے جائیں؟
کیا آپ چاہیں گے کہ فٹ پاتھ پر چلتے چلتے کوئی موٹر سائیکل سوار آپ کو کہیں بھی ہاتھ پھیر جائے؟
کیا آپ چاہیں گے کہ بازار سے گزرتے ہوئے ہر مشٹنڈا آپ کو ایسی نظروں سے دیکھے جیسے آپ نے کپڑے نہیں پہنے ہوئے؟
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی مرضی بغیر ساری عمر کے لیے آپ کو ایک انجان عورت کے پلے باندھ دیا جائے جو آپ کو پسند بھی نہ ہو؟
کیا آپ چاہیں گے کہ گلی سے گزرتے ہوئے آپ پر آوازے کسنے کے لیے ہر بندہ آزاد ہو؟
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کو دیکھ کر یا آپ کو دکھانے کے لیے کوئی بندہ کہیں بھی کھجلی شروع کر دے؟
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کو ساری زندگی دوسروں کی مرضی کا لباس پہننا پڑے؟
مرد ہوتے ہوئے، معاشرے کی ایک طاقتور کلاس کا نمائندہ ہوتے ہوئے آپ کبھی ایسا کچھ بھی نہیں چاہیں گے۔ فرض کیجے ان میں سے کوئی ایک بھی سین آپ کے ساتھ ہو جائے اور آپ کچھ نہ کر سکیں تو وہ کیا کہلائے گا؟ چپ، صبر یا رضا مندی؟
جو عورتیں کرتی ہیں وہ یہی ہوتا ہے۔ وہ رضا مندی نہیں ہوتی۔
جن چیزوں کو آپ تقدیر کا لکھا سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں ان میں ڈیڑھ لاکھ مجبوریاں اور شامل کر لیں تو یہ سچوئشن آپ کی زبان میں ‘عورت کی رضا مندی’ کہلاتی ہے۔
رضا مندی، راضی ہونا، مرضی ہونا، خود چاہنا، اپنے اختیار سے کوئی کام ہونے دینا، چاہتے ہوئے کوئی فعل سرانجام دینا یا کانسینٹ ہونا، یہ سب لفظ ایک ہی مطلب کے ہیں۔
میرا مطلب کیا تھا؟ انتہائی سادہ لفظوں میں یہ سمجھیے کہ عورت کو زندہ رہنے دیں۔ کتا بھونکتا ہے تو انسان خود کو نہیں باندھتا، کتے کو بھگاتا ہے۔
اپنے اندر سے کتا بھگایے، اپنے نر بچوں کا کتا ماریے۔
باقی امید ہے کہ رضا مندی، خاموشی، صبر، جبر اور کانسینٹ میں کیا فرق ہوتا ہے، مکمل واضح ہو گیا ہو گا!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر