نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملکی تاریخ کا انوکھا واقعہ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناسب ترین بات تو یہی ہے کہ سیاسی و دستوری تنازعات طے کرنے کیلئے الگ سے وفاقی دستوری عدالت ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ میں 52ہزار سے زائد مقدمات ہیں آپ صرف پچھلے کی سال یا یوں کہہ لیجئے 10ماہ کے دوران سپریم کورٹ میں سیاسی تنازعات اور بعض آئینی مقدمات کی سماعتوں کے دن شمار کرکے دیکھ لیجئے کہ اس سے عام مقدمات کے سائلین کتنے متاثر ہوئے۔

یہ ایک پہلو ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ (اس کی طرف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی متوجہ کیا) چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیار کا معاملہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ کوئی ازخود نوٹس کسی کو سہارا فراہم کرنے کے لئے لیا گیا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ دستور سازی کرنے والے ہی بہترین تشریح کرسکتے ہیں۔ عدالت کا کام آئینی حدود میں رہ کر فرائض کی انجام دہی ہے۔

قانون کی من پسند تشریح کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کی وجہ سے مسائل ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ نظام انصاف پر بھی سوال اٹھنے لگتے ہیں جیسا کہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے انحراف کرنے والے ارکان کے معاملے پر خود سپریم کورٹ کے پچھلے برس کے دو متضاد فیصلوں سے پیدا ہوئے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا آئینی تشریح تین پانچ اور نو رکنی بنچوں کو کرنے کا حق ہے یا آئینی تشریحات کے لئے فل کورٹ کا انعقاد ہونا چاہیے؟

یہاں باردیگر یہ عرض کردوں کہ آئینی تشریحات کے لئے اولاً تو پارلیمان کی اپنی کمیٹی ہونی چاہیے جسے قانونی ماہرین کی معاونت حاصل ہو یہ ممکن نہیں تو پھر وفاقی دستوری عدالت بہترین حل ہے۔

اسی طرح صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے دو جج صاحبان کے نوٹ پر لئے گئے ازخود نوٹس پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان سے بچا جاسکتا تھا اگر پہلے اور دوسرے دن کی سماعت کے دوران سامنے آنے والے سوالات اور اعتراضات کو انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے فل کورٹ کی تشکیل کی طرف بڑھاجاتا۔

9رکنی بنچ میں سے 4جج الگ ہوگئے (حساب ویسے یہ ہے کہ 3جج الگ ہوئے ایک کو ان کے اختلافی نوٹ کی وجہ سے چیف جسٹس نے بنچ میں شامل نہیں کیا) اس بنا پر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا ازخود نوٹس لینے اور بنچوں کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات محدود ہیں؟ اختیارات داخلی قواعدوضوابط کے تحت ہیں انہیں آئینی تحفظ حاصل نہیں۔

اس طوریہ دیکھنا ہوگا کہ دنیااور بالخصوص پڑوسی ممالک کی بڑی عدالتوں میں کیا پریکٹس ہے۔ کیا وہاں بھی داخلی اختیارات کے تحت چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے، بنچوں کی تشکیل اور کون سا بنچ کون سے مقدمات سنے گا کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔

حالیہ ازخود نوٹس کی ابتدائی 2سماعتوں والا بنچ 9رکنی تھا۔ 4ججز کے الگ ہوجانے کی صورت میں کیا دوبارہ 9رکنی بنچ کی تشکیل ضروری نہیں تھی؟ اس پر کیوں اصرار کیا جارہا ہے کہ 4ارکان کے الگ ہوجانے کے باوجود 5رکنی بنچ سماعت کرے گا۔ اس اصرار اور سوشل میڈیا پر ایک خاص فہم کے حامل صحافیوں اور دانشوروں کی آراء کو ملاکر دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طبقہ کسی ممکنہ فیصلے سے پیشگی آگاہ ہے اس کے خیال میں فیصلہ 3اور 2سے آئے گا یا 4اور ایک سے۔

مطلب جو تاثر ابھرا وہ یہ ہے کہ غلام محمد ڈوگر کی معطلی اور تبادلے کے کیس میں اختیارات سے تجاوز ہوا فریق نہ ہونے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا گیا پھر ازخود نوٹس لینے کے لئے نوٹ لکھا گیا۔ یہ سب ایک خاص سوچ کے اظہار کا تسلسل ہے، یہ تاثر درست ہے۔

بعض عدالتی شخصیات کے خاندانوں کے سیاسی تعلق اور ہمدردیوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کو صرف مغالطہ یا پروپیگنڈہ قرار نہیں دیا جاسکتا نہ ہی یہ مشورہ مناسب ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے پچھلے دنوں عمران خان کو حفاظتی ضمانت دینے کے مرحلے میں جو رویہ اپنایا اس سے صرف نظر کرکے اسے صرف انصاف کی فراہمی کے اصول کی روشنی میں دیکھا جائے۔

یہ مشورہ دینے والے ماضی میں بعض فیصلوں اور فیصلوں میں لکھی شرائط پر کیا کہا کرتے تھے اسے کیسے بھلا دیا جائے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ بعض سیاسی مقدمات اور ضمانتوں پر کچھ فیصلوں نے نظام عدل پر سوالات اٹھوادیئے ہیں ان کا جواب کون دے گا اور جواب نہ دینے کی صورت میں جو برا تاثر پیدا ہوگا اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

9رکنی بنچ سے الگ ہونے والے ججز میں سے 2نے جو سوالات اٹھائے سوموار کو تیسرے دن کی سماعت میں یہ سوالات زیربحث کیوں نہ آسکے۔ دوسرے روز کی سماعت میں بعض سوالوں کو زبانی حکم کے ذریعے فیصلہ کا حصہ بنایا گیا مگر دوسرے روز کی سماعت کا جو تحریری حکم جاری ہوا اس میں ان کا ذکر نہیں۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے بنچ سے الگ ہونے والے ایک جج، جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔

اپنے اختلافی نوٹ میں انہوں نے ایک سے زائد سوالات اٹھائے ان میں سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی اسمبلی جمہوریت اور آئینی تقاضے پورے کرکے توڑی گئی یا آئینی اصولوں کو روند کر توڑ گئی ؟ ۔

جناب جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کا قبل از وقت ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہونا اور پھر سوشل میڈیا کا حصہ بن جانا بھی ایک حساس معاملہ ہے تو وہ شکر ہے کہ چیف جسٹس نے سوموار کی سماعت کے دوران بتایا کہ یہ اتفاقاً ہوگیا آئندہ خیال رکھا جائے گا مگر جمعہ سے سوموار کے درمیانی دنوں میں اس معاملے کو لے کر جسٹس مندوخیل کی کردار کشی کرنے والے یوٹیوبرز اور خودساختہ تجزیہ نگاروں کا محاسبہ کون کرے گا؟

جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی کہ ’’چیف جسٹس کے اوپن کورٹ حکم اور تحریری حکم نامے میں فرق ہے‘‘۔ ایسا کیوں ہوا؟

بنچ سے الگ ہونے والے چار میں سے دو جج صاحبان اور قانونی حلقے ازخود نوٹس لئے جانے کے لئے لکھے گئے نوٹ، ازخود نوٹس کے اختیار، بنچ کی مخصوص فہم میں من پسند تشکیل بارے جو سوالات اٹھارہے ہیں اصولی طور پر ان کا جواب ابتدائی دو سماعتوں میں دے دیا جانا چاہیے تھا۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک ایسا معاملہ جو دو صوبائی ہائیکورٹس میں پہلے سے زیرسماعت ہو اس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اور سماعت کا آغاز بنتا بھی تھا۔ کیااس عمل سے ہائیکورٹ کی آزادی پر حرف نہیں آئے گا۔

یوں بھی کہہ پوچھ لیجئے کہ اگر سپریم کورٹ اس معاملے پر کوئی فیصلہ کردیتی ہے تو لاہور اور پشاور ہائیکورٹس میں اس معاملے پر زیرسماعت مقدمات میں ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس کیسے جاسکے گی؟ ازخود نوٹس کے لئے چیف جسٹس کو نوٹ بھیجنے والے جج صاحبان اس امر سے لاعلم تھے کہ جس معاملے میں وہ ازخود نوٹس لینے کی تجویز دے رہے ہیں یہ دو ہائیکورٹوں میں پہلے سے ہی زیرسماعت ہے۔

بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ 9رکنی بنچ کا ٹوٹنا معمولی نہیں غیرمعمولی بات ہے۔ یہ ملکی تاریخ کا اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ 9رکنی بنچ ٹوٹ گیا چیف جسٹس نے 5رکنی بنچ کے ساتھ سماعت جاری رکھی۔

قانون اورسیاست و صحافت کے طالب علموں کو ذوالفقار علی بھٹو کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ کی یاد آگئی۔

اس امر کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ پچھلے ایک سال سے اہم نوہیت کے سیاسی اور آئینی مقدمات کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچوں میں تین سینئر ججز کو شامل ہی نہیں کیا جاتا اس کے برعکس دو تین مخصوص جج صاحبان کو ہر اس بنچ میں شامل کیا جاتا ہے جس نے سیاسی و قانونی تنازعات کی سماعت کرنا ہوتی ہے۔

سینئر ججز کو نظرانداز کرکے مخصوص فہم کے حامل جج صاحبان کی بنچوں میں شمولیت پر جو اعتراضات اور تحفظات ہیں انہیں کیسے مدنظر نہیں رکھا گیا۔

جن دو ججوں نے ازخود نوٹس لینے کا نوٹ لکھا ان میں سے ایک کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس جمع کروایا جاچکا۔ ہم اگر کسی معزز جج کے صاحبزادے، کسی کی صاحبزادی اور خاندان کے دوسرے افراد کی ایک سیاسی جماعت سے کھلی ہمدردی اور اس جماعت کے اجتماعات میں ان کی شرکت کو ان افراد کا ذاتی معاملہ سمجھ کر یہ مان بھی لیں کہ خاندان کی سیاسی ہمدردیاں عدالتی نظام پر اثرانداز نہیں ہوتی تو بھی اس سوال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان سے باہر کے ممالک کی اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے بچے اور خاندان کے لوگ بھی کیا اسی طرح سیاسی ہمدردیوں کا کھل کر اظہار کرتے ہیں؟

9رکنی بنچ کے ٹوٹنے اور 5رکنی بنچ کے سماعت کرنے کا معاملہ جب فیصلہ کی صورت اختیار کرے گا تو یقیناً یہ عدالت کا فیصلہ ہوگااور جو بھی ہو لیکن فیصلہ جس سیاسی بدمزگی کے بڑھاوے کا ذریعے بنے گا اس کا کیا ہوگا۔

ہماری دانست میں اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ جب معاملہ 2ہائیکورٹوں میں زیرسماعت تھا تو ازخود نوٹس کے لئے نوٹ لکھنا اور پھر ازخود نوٹس لے لیا جانا ہر دو پر تحفظات درست ہیں۔

اب تک جو بدمزگی، عدم اعتماد والی صورتحال اور دوسرے مسائل نے سر اٹھایا اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں فیصلے نہیں جج بولتے ہیں جبکہ فیصلوں کو بولنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author