نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عدل بنا جمہور نہ ہو گا۔۔۔ || آفتاب احمد گورائیہ

جوڈیشل ایکٹوازم کے دلددہ ججوں کا اپنا حال یہ ہے کہ جب افتحار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتحار کی کرپشن کا معاملہ سامنے آیا تو موصوف غیر جانبداری کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود بینچ میں آ بیٹھے۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں عدلیہ کے کردار پر ہمیشہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں، عدلیہ کے فیصلے ہمیشہ زیر بحث بھی رہے ہیں لیکن دھیمے سروں میں کی جانے والی تنقید اب اونچی آوازوں میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ ان اونچی آوازوں کا باعث نہ صرف عدلیہ کے متنازعہ فیصلے ہیں بلکہ وہ جوڈیشل ایکٹوازم بھی ہے جس کی وجہ سے مقنہ اور ایگزیکٹو کے درمیان کشیدگی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ حال ہی میں خواجہ آصف کی جانب سے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر ان کی جانب سے عدلیہ کو جو آئینہ دکھایا گیا ہے اس کی گونج دور دور تک سنائی دے رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اعلی عدلیہ کی جانب سے کچھ مخصوص ججوں کے ذریعے ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کو جس طرح کا فوری انصاف اور اکثر اوقات غیرآئینی ریلیف مہیا کیا جا رہا ہے اس نے اعلی عدلیہ کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب نہ صرف پارلیمان بلکہ عدلیہ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور کچھ معزز ججوں نے اپنے برادر ججوں کے کنڈکٹ پراعتراض اٹھانے شروع کر دئیے ہیں۔

جوڈیشل ایکٹوازم کا جن افتحار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک کے بعد بوتل سے ایسا باہر نکلا ہے کہ اب دوبارہ بوتل کے اندر جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عدلیہ بحالی تحریک ایک ایسا دھوکہ تھا جس میں مشرف کی آمریت سے ستائے ہوئے عوام نے بہت بڑی تعداد میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں افتحار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کیا گیا۔ عوام کو امید تھی کہ اب عدلیہ کا ایک نیا دور شروع ہو گا اور اعلی عدلیہ انصاف کے اعلی معیار قائم کرے گی لیکن افتحار چوہدری نے اپنے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ افتحار چوہدری کا کوئی ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں کہ جسے کہا جا سکے یہ فیصلہ عوامی مفاد اورانصاف کا فیصلہ ہے۔ ہاں اپنے سیاسی ایجنڈے کے باعث ایک منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو گھر ضرور بھیج دیا۔ اس کے علاوہ سو موٹو کا ہتھوڑا اس تواتر سے استعمال کیا گیا کہ حکومت کے ہر فیصلے کے خلاف سو موٹو لیا جانا معمول بن گیا۔ حکومتی وزرا ہر روز بلاناغہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے صفائیاں دیتے نظر آتے۔ افتحار چوہدری نے ایگزیکٹو کے معاملات میں دخل اندازی سے حکومت کو عملا مفلوج کرکے رکھ دیا۔ افتحار چوہدری نے ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کی جو روایت قائم کر دی اسکے بعد آنے والے زیادہ تر چیف جسٹس بھی اسی روش پر قائم ہیں۔ جمہوری حکومتوں کے کام میں مسلسل مداخلت کی جاتی ہے اور مقنہ کی بجائے ایگزیکٹو کے کام پر فوکس کیا جاتا ہے، تبادلوں تک کے کام عدلیہ نے سنبھال رکھے ہیں، پہلے تو سندھ کے آئی جی کو تبدیل کرنے پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے کہ عدالت کی مرضی کے بغیر صوبائی حکومت آئی جی کو تبدیل نہیں کر سکتی لیکن اب تو معاملہ سی سی پی او تک کے تبادلے میں دخل اندازی تک آ چکا ہے۔ فلڈ ریلیف کے کام کی نگرانی عدلیہ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ حکومت کے پاس تو یہ کام کرنے کے لئے عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے وہ کروڑوں ووٹ لے کر آتی ہے اور عوام کو جوابدہ بھی ہوتی ہے یہ جج کتنے ووٹ لے کر آتے ہیں۔ آئین میں حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داریوں کا واضح تعین کیا گیا ہے لیکن جوڈیشل ایکٹوازم کے باعث عدلیہ کی جانب سے ایگزیکٹو کے کام میں مداخلت سے نہ صرف حکومتی امور متاثر ہوتے ہیں بلکہ وہ لاکھوں سائل بھی متاثر ہوتے ہیں جن کے مقدمے سالوں سے شنوائی کے منتظر ہیں۔

جوڈیشل ایکٹوازم کے دلددہ ججوں کا اپنا حال یہ ہے کہ جب افتحار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتحار کی کرپشن کا معاملہ سامنے آیا تو موصوف غیر جانبداری کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود بینچ میں آ بیٹھے۔ افتحار چوہدری کے کریڈٹ پر کوئی ایسا فیصلہ تو موجود نہیں ہے کہ جسے مثالی کہا جا سکے البتہ افتحار چوہدری کے ریکوڈک کیس والے فیصلے کی وجہ سے حکومت پاکستان کوچھ بلین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑا جبکہ آج ہم ایک ایک ڈالر کے لئے دنیا بھر کی منتیں کر رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی مسٹر جسٹس نے اپنے ضمیر پر ذرا سا بوجھ یا شرمندگی محسوس کی کہ ان کے ایک غلط فیصلے کے باعث غریب ملک کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر کوئی انصاف والا ملک ہوتا تو فیصلہ دینے والے ججوں کی جائیدادیں بیچ کر یہ جرمانہ ادا کیا جاتا لیکن ہم تو ان ججوں کو بعد از ریٹائرمنٹ بھی پندرہ پندرہ لاکھ پنشن ادا کر رہے ہیں۔ کچھ جج حضرات تو ایسے بھی ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں اور ان سب مراعات کا خرچہ وہ غریب عوام اٹھا رہے ہیں جن کے مفاد میں شائد ہی کبھی کوئی فیصلہ دیا گیا ہو۔

عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں کی تاریخ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے شروع ہوتی ہے اور اکا دُکا چند فیصلوں کو چھوڑ کر ہماری عدالتی تاریخ متنازعہ ترین فیصلوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہماری اعلی عدلیہ ایک منتحب وزیراعظم کو پھانسی چڑھا چکی ہے جبکہ دو منتحب وزرائے اعظم کو بیک جنبش قلم گھر بھیج چکی ہے۔ ایک ہی طرح کے الزامات پر توڑی گئی اسمبلیوں میں سے کسی کو بحال کیا جاتا رہا ہے اور کچھ ناپسند لوگوں کی اکثریت والی اسمبلیوں کی بحالی مسترد کی جاتی رہی ہے، مارشل لاؤں کو یہی اعلی عدلیہ جائز قرار دے کر ڈکٹیٹروں کی سہولت کاری کرتی رہی ہے۔ یہاں تو ارشاد حسن خان جیسے جج بھی چیف جسٹس کی کرسی پر براجمان رہے جنہوں نے نہ صرف ڈکٹیٹر مشرف کے مارشل لا کو جائز قرار دیا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ عدلیہ کی جانب سے دئیے جانے والے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مشرف نے آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جسے بعد میں ایک جمہوری حکومت نے اقتدار میں آ کر دوبارہ اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ آئین توڑنے والے ڈکٹیٹروں کو تحفظ دینے والی عدلیہ آج کہہ رہی ہے کہ آئین ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور کہا ان کو جا رہا ہے جنہوں نے اس آئین کو بنایا ہے اوراسے بحال کیا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران سیاسی نوعیت کے تہتر کیسوں میں چند مخصوص ہم خیال جج ہی بیٹھ کر من پسند فیصلے دیتے رہے جبکہ صرف نو کیس ایسے ہیں جن میں ہم خیال ججوں کے علاوہ کسی جج کو بینچ میں شامل کیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران ایک آدھ کیس کے علاوہ ہر فیصلے میں ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کو آوٹ آف دی وے جا کر بلکہ آئین تک کی من مانی تشریح کر کے ریلیف دیا گیا۔ چیف جسٹس کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والے سنئیر ترین جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی اور چند دوسرے اپ رائٹ شہرت والے سنئیر جج حضرات کو قومی یا آئینی نوعیت والے کسی کیس میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ چار پانچ مخصوص شہرت کے حامل جج اس طرح کے ہر بینچ میں شامل نظر آتے ہیں۔ ان ججوں کی بینچ میں موجودگی اور سنئیر ججوں کی بینچ میں عدم موجودگی پر وکلا حضرات اعتراض بھی اٹھاتے رہے ہیں لیکن ان کا اعتراض ڈھٹائی کے ساتھ مسترد کر دیا جاتا ہے اور ہم خیال ججوں کے ساتھ ہی نہایت اہم کیسوں میں متنازعہ فیصلے کر دئیے جاتے ہیں۔ تین چار جج مل دو تہائی اکثریت سے پاس ہونے والے آئین میں ترمیم کر دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسے ایسے متنازعہ فیصلے بھی سامنے آئے کہ ایک ایسا فیصلہ دیا گیا جس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا۔ اس فیصلے کے بعد ایک اور کیس میں پہلے سے موجود فیصلہ جس کے ذریعےتحریک انصاف کو فائدہ پہنچایا گیا تھا اس میں غلطی سامنے آئی تو اس غلط فیصلے کی نئی تشریح کردی گئی اور اس نئی تشریح کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو پہنچایا گیا۔ یہ ہے وہ صورتحال جس کی وجہ سے نہ صرف عدلیہ کے کردار پر شک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے تاریخی میثاق جمہوریت میں عدالتی اصلاحات کے بارے بڑی واضح گائیڈ لائن دی گئی تھی جس میں سے کچھ پر اٹھارویں ترمیم میں عملدرآمد کر بھی دیا گیا مثلاً ججوں کی تقرری پارلیمانی کمیشن کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ساری دنیا میں ججوں کا تقرر پارلیمان ہی کرتی ہے لیکن افتخار چوہدری کو یہ ترمیم گراں گزری اور میاں نواز شریف نے افتخار چوہدری کے کہنے پر اتحادی حکومت پر دباؤ ڈال کر انیسویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کا اختیار پارلیمانی کمیشن سے لے جوڈیشل کمیشن کو دلوا دیا۔ میاں نواز شریف آج یقیننا اپنے اس فیصلے پر پچھتاتے ہوں گے کیونکہ آج کے جوڈیشل ایکٹوازم میں ان کے اس کے فیصلے کا بہت اہم کردار ہے۔ میثاق جمہوریت میں آئینی معاملات کی تشریح کے لئے ایک آئینی عدالت کے قیام کا بھی وعدہ کیا گیا جو بوجہ آج تک پورا نہیں ہو سکا۔ جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ جب بھی انہیں موقعہ ملے تو اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر عدالتی اصلاحات کا کام مکمل کیا جائے۔ تباہی کی طرف گامزن معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے نظام انصاف کا درست ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک نظام انصاف کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

سیاستدانوں کا احتساب تو ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور آئیندہ بھی ہوتا رہے گا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر اس طبقے کا احتساب کیا جائے جو اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرے پھر چاہے وہ جج ہوں، جرنیل ہوں، بیوروکریٹ ہوں یا سیاستدان ہوں۔ عدلیہ اور ججوں کا احترام ان کے فیصلوں کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن جب صورتحال یہ ہو جائے کہ بینچ دیکھ کر پتہ چل جائے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے تومعاملات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، یہاں تک درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس جج کا کیا فیصلہ ہو گا۔ اس ساری صورتحال میں عوام اس حد تک نظام انصاف سے متنفر ہو چکے ہیں کہ ہر مکتبہ فکر اب مسٹر جسٹس صاحبان کے بارے کھل کر بات کر رہا ہے۔ عدلیہ کو خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ عدلیہ کے اندر سے اس بات کو محسوس کیا جانے لگا ہے کہ پانی اب سر سے گزرنے والا ہے۔ کچھ معزز جج صاحبان کی جانب سے اپنے برادر ججوں کے کردار پر اٹھائے جانےوالے سوالات اشارہ دے رہے ہیں کہ عدلیہ کے اندر خود احتسابی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائیندہ پاکستان بار کونسل اور ملک بھر کی بارز کی جانب سے بھی ہم خیال جج صاحبان کے کردار پر نہایت سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ امید ہے کہ اب معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہوں گے ورنہ تباہی کی طرف تو جا ہی رہے ہیں۔

عدل کے ایوانوں میں سن لو

اصلی منصف پھر آئیں گے

روٹی کپڑا اور مکان اپنا

لوگوں کو ہم دلوائیں گے

نوٹ: شاعر سے معذرت کے ساتھ کیونکہ اصل شعر میں مکان کی جگہ گھر لکھا ہوا ہے۔

۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author