عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم آکسفورڈ یونیورسٹی کی قدیم عمارتوں کے حسن میں گم تھے کہ ایسے میں ہمارے گائیڈ نے ہمیں طالب علموں کی قدیم رہائش گاہیں دکھائیں اور بتانے لگے کہ گذشتہ تین صدیوں کے دوران ان کمروں سے سائنس کی وہ تھیوریز نکلی ہیں جنہوں نے دنیا کی سوچ کا مرکز بدل دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ٹیکنالوجی کے موجد، سائنس دان، مشہور تاریخ دان دن بھر اور رات بھر حصول علم میں غرق رہتے تھے۔
میں سوچنے لگی کہ اگر ہر وقت حصول علم ہی رہتا تھا تو پھر حصول معاش کب ہوتا ہو گا؟ اور اگر تعلیم کے ساتھ نوکری بھی چلانی ہو تو کم از کم جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ آکسفورڈ کا علاقہ اس کے لیے موزوں نہیں۔
تو کیا ان سکالرز کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا جس کی ذمہ داری بھی اٹھانی ہو؟ کیا آکسفورڈ کے وہ سارے طالب علم امیر کبیر تھے؟
ان سوالات کا ایک جواب یہ ہے کہ گزرے وقتوں میں یونیورسٹی تک ہر کوئی نہیں پہنچ پاتا تھا، یہ امرا یا پھر ذہین فطین افراد کے لیے مخصوص تھیں اور جو اعلیٰ تعلیم کا اہل ہو اسے سرکاری اور شاہی وظائف ملنا معمول کی بات تھی۔
ایک وقت یہ ہے کہ آج امیر غریب، ذہین اور عام طالب علم ہر کوئی تعلیم کی دوڑ میں شامل ہے۔ زمانے کے ساتھ یونیورسٹی تک پہنچنا تو آسان ہو گیا ہے لیکن علم کے سمندر میں غرق ہو جانے کی عیاشی خال خال ہی کسی کے نصیب میں آتی ہے۔
متوسط طبقے کے وہ نوجوان جو ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ویسے تو خود بھی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ جیب ہلکی ہے اس لیے اوقات میں رہ کر ہی پڑھنا ہے اسی لیے اپنے تعلیمی زمانے کے خرچوں کے لیے عموماً چھوٹے موٹے کام ڈھونڈتے رہتے ہیں اور زیادہ اونچا اڑنا مقصود ہو تو تعلیمی سکالرشپس پر نظر رہتی ہے۔
تعلیمی سکالرشپ مل جائے تو اکثر طلبہ کی ترجیح ہوتی ہے کہ تعلیمی اخراجات کے لیے ملنے والی گرانٹ کو جتنا ہو سکے بچایا جائے۔ میں ایسے کتنے ہی پاکستانی طالب علموں کو جانتی ہوں جو سکالرشپ ملنے پر یورپی ممالک میں پڑھ تو رہے ہیں لیکن گرانٹ کی رقم سے وہ پاکستان میں مقیم اپنے گھر والوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔
مصیبت یہ ہے کہ ہر طالب علم کو سکالرشپ ملتا نہیں، پاکستانی طالب علم اگر اپنی گھر والوں کی جمع پونجی لگا کر باہر نکلے ہیں تو پہلا کام اس رقم کی ریکوری ہوتا ہے۔ یہ ریکوری انہیں تعلیم کے ساتھ چھوٹی موٹی نوکریوں کی جانب دھکیل دیتی ہے۔
بیرون ملک یونیورسٹیوں کے وہ طالب علم جنہیں اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے پارٹ ٹائم کام کرنا پڑے انہیں اکیڈمک زبان میں ’ورکرز سکالرز‘ کہتے ہیں۔ یہ سکالرز اگر دن بھر یونیورسٹی میں جینوم سائنس یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں تو شام میں ورکر بن کر کسی ریستوران میں برگر بنا کر اور فی گھنٹہ کے حساب سے دیہاڑی لگاتے ہیں۔
میں نے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ میں ہونے والی کچھ سٹڈیز پر نظر دوڑائی، لگ بھگ سب کا خیال ہے کہ ورکر سکالر بننا کسی طالب علم کو پسند نہیں لیکن یہ ضرورت ہے اور اس ضرورت نے طالب علموں کی تعلیم، تعلیمی سرگرمی، ان کی پرفارمنس کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان تحقیقی مقالوں کا ماننا ہے کہ اب جامعات سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے ڈگری یافتہ افراد نکلنا معمول ہے لیکن سکالرز شاذ و نادر ہی ملتے ہیں کیونکہ سکالر کی راہ میں اس کا ورکر ہونا بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔
تحقیقی سٹڈیز کی اہمیت مسلم ہے لیکن عملی زندگی میں جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ حالات بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً آج سے پندرہ برس پہلے پاکستان کی سرکاری جامعات میں پڑھنے والے نوجوانوں کے روزمرہ اور تعلیمی خرچے اٹھانا ان کے والدین کے لیے کچھ ایسا بھی مشکل نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر بھی پاکٹ منی نکل آتی تھی۔
لیکن مہنگائی کا جو رجحان پچھلے پانچ برس میں ہوا ہے ایسے میں ناممکن ہوتا جا رہا ہے کہ ایک تنخواہ دار متوسط گھرانہ اپنے گھر کے بیس بائیس برس کے بیٹے یا بیٹی کو یونیورسٹی بھیجے نہ کہ کسی کام پر لگائے تاکہ گھر کی آمدنی میں کچھ سہارا ہو سکے۔ ایسے میں ورکر سکالر بننا نہ پڑھنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔
پاکستان میں رہتے ہوئے یونیورسٹی پڑھنے والے طالب علموں کے پاس تو پھر چوائس ہے لیکن بیرون ملک جانے والے طالب علم تو دوہری مشقت کے لیے خود کو تیار کر کے داخلہ لیتے ہیں، گھر والوں کو یہ دلاسہ دیتے ہیں کہ وہ جاتے ہی پیسے بھیجنا شروع کر دیں گے۔
ہم پاکستانی شاید اس حوالے سے سخت ہڈی بوٹی کے لوگ ہیں، درجنوں ایسے طالب علموں کو جانتی ہوں جو یہاں ناروے کے ہوٹلوں میں رات گئے تک کام کرتے ہیں اور تعلیمی میدان میں بھی لوہا منوا رہے ہیں۔
ورکر سکالر بننا اب ضرورت اور مجبوری، کے ساتھ ساتھ معمول بن گیا ہے جسے نیو نارمل کہہ لیں۔ یہ نیو نارمل تو بدلنے والا نہیں لیکن نوجوان تو خود کو تیار کر سکتے ہیں، کما کر دینے والے ہنر سیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہنر ہوٹل کا شیف، پھرتیلا ڈیلوری رائیڈر، خوش اخلاق ویٹر، ماہر الیکٹریشن یا پھر کمپیوٹر پروگرامر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی قباحت نہیں، یہاں یورپ میں خوشحال گھرانوں کے نوجوان تو فیشن میں آڈ جابس یعنی چھوٹے کام کرتے ہیں اور اسے زندگی کا تجربہ شمار کرتے ہیں۔ یاد رکھیں جیت اس کی ہو گی جو ڈگری یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی ہو۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر