حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں منعقد ہونے والی ’’وحدت کانفرنس‘‘ کے اعلامیہ کو پیغام پاکستان قومی کانفرنس کا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ
’’نفاذشریعت کے نام پر ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی حرام اور بغاوت ہے۔ علماء کا اجتماع سمجھتا ہے کہ ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی کا تمام تر فائدہ اسلام اور ملک کے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق سوشل میڈیا کو فرقہ پرستی، تشدد، نفرت انگیزی او دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
یہ بھی کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کا فتویٰ اسلامی تعلیمات سے متصادم اور پاکستان کے خلاف ہے انہیں پاکستان کو اسلامی ریاست تسلیم کرنا چاہیے‘‘۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے کچھ دن قبل اپنے ہم خیال یعنی دیوبندی مکتب فکر کے علماء کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا۔ اس خط میں کہا گیا
” ہماری (ٹی ٹی پی) کی نفاذ اسلام کے لئے جدوجہد آپ علماء کے ان فتوئوں کی روشنی میں ہی ہے جو آپ نے وقتاً فوقتاً دیئے۔ جدوجہد کا یہ راستہ ہم نے آپ کی تبلیغات، دروس اور علمی فہم سے متاثر ہوکر اپنایا۔ مفتی نور ولی نے اپنے خط میں مزید لکھا آپ حضرات کے فتوے کی روشنی میں ہم نے جو جہاد شروع کیا تھا اب اگر آپ حضرات کو ہمارے جہاد میں کوئی کمی بیشی نظر آرہی ہو آپ کے خیال میں ہم نے اس فتوے پر عمل کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے یا ہم نے اپنا جہادی قبلہ تبدیل کرلیاہے تو آپ ہمارے بڑے ہیں۔ ہمارے علماء مشائخ اور اساتذہ لہٰذا ضروری ہے کہ ہماری علمی و شرعی رہنمائی فرمائیں تاکہ آپ کے دلائل اور رہنمائی سے ہم اپنے مجاہدین کو مطمئن کرسکیں جو جہاد اسلامی کے خلاف آپ حضرات کے آئے دن کے بیانات سے پریشان ہیں‘‘ ۔
مفتی نور ولی محسود کے اس خط کا بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں منعقدہ وحدت کانفرنس میں بھی تذکرہ ہوا۔ اس کانفرنس سے قبل دیوبندی مکتب فکر کے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے واضح کیا تھا کہ ’’پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کا دستور اسلامی ہے۔ ریاست سے نفاذ اسلام کے ضمن میں کوتاہی ہوسکتی ہے اس کوتاہی کی نشاندہی ہونی چاہیے لیکن بندوق اٹھاکر ریاست پر چڑھ دوڑنا صریحاً غلط ہے اور اسے جہاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ جس طرح شرعی امور انجام نہ دینے سے کوئی مسلمان کافر نہیں ہوجاتا اسی طرح نفاذ اسلام میں کوتاہی سے ریاست کافر نہیں ہوجاتی۔
مفتی تقی عثمان کا یہ سوال بہت اہم ہے کہ ’’بیس سال کی مسلح جدوجہد جس میں بچوں، عورتوں اور علماء تک کو نہیں بخشا گیا کیااسکے نتیجے میں ملک میں کوئی ادنیٰ سی تبدیلی بھی آسکی؟ اپنے جواب میں انہوں نے بھی رباست کے خلاف مسلح جدوجہد کو حرام اور بغاوت قرار دیا۔
مفتی تقی عثمان دیوبندی مکتب فکر کے بڑوں میں سے ایک ہیں یقیناً ان کا موقف اس لئے بھی اہم ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کی ہم خیال مسلح تنظیموں کی بڑی تعداد اسی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔
ٹی ٹی پی بنیادی طور پر ان ہم خیال مسلح گروہوں کا اتحاد تھا جنہوں نے ابتداً جنرل پرویزمشرف کی افغان پالیسی کو خلاف اسلام قرار دیتے ہوئے جہاد کا اعلان کیا تھا۔ مسلح تنظیموں کی اس نئی تشکیل کے عمل میں وہ گروہ بھی شامل تھے جنہوں نے ایک خاص فہم کی مذہبی تنظیم کی کوکھ سے جنم لیا۔ یہ تنظیم تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ اس تنظیم کی فکری اساس بھی اپنے مسلک کے علماء کے وہ فتاوے تھے جو ایک دوسرے مسلم مکتب فکر کی تکفیر کے خلاف دیئے گئے۔
افغان جہاد، خانہ جنگی اور بعدازاں 9/11 کے بعد کی نئی جنگ ان تینوں ادوار میں ریاست نے ہر قدم پر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
جنرل ضیاء اور ان کے ساتھی تکفیر کے اس کاروبار کو اپنے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے لئے ضروری ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ تکفیر کے اس کاروبار کی وجہ سے معاشرے میں پھیلتے تعصبات ان کے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے ۔
جنیوا معاہدہ کے بعد افغانستان میں شروع ہوئی خانہ جنگی کے دوران مختلف الخیال افغان تنظیموں کے پاکستانی ہم خیالوں کو منظم ہونے رضا کار افغانستان بھجوانے کے عمل اور یہاں ’’شہداء‘‘ کے جنازوں کے اجتماعات سے پیدا شدہ صورتحال سے چشم پوشی برتی گئی۔
ان مسلح گروہوں اور ضیاء رجیم میں روابط اور فکری ہم آہنگی پر بہت کچھ لکھا جاچکا۔ جنرل ضیاء اور ان کے بعد کے ادوار میں افغان پالیسی کو بلاشرکت غیرے کنٹرول کرنے والوں نے سابق جہادیوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آباد کیا۔ یہ آبادکاری اس لئے ہوئی کہ ان سابق جہادیوں کو ان کے ممالک نے واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔
پھر سی آئی اے نے آباد کاری کے لئے فنڈنگ بھی کی تھی۔ افسوس کہ محض 48لاکھ ڈالر کی رقم کی خاطر آبادکاری کے لئے آماگدگی ظاہر کرنے والے نابغوں نے مستقبل میں جنم لینے والے خطرات کو نظرانداز کردیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے قیام کے وقت جاری کئے جانے و الے اعلامیہ کا اہم نکتہ یہی تھا کہ پاکستان کا نظام کفر پر مبنی ہے معاشرہ اس نظام کا اسیر ہے۔
یہ صورتحال جہاد اسلامی کی متقاضی ہے تاکہ حکومت الٰہیہ کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ ہم آج اس پر افسوس ہی کرسکتے ہیں کہ ابتدائی دنوں میں جب تحریک ط ا ل ب ا ن کے اعلامیہ کو اسلامی تعلیمات اور تصور جہاد سے متصادم قرار دیتے ہوئے دیوبندی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم دین مولانا حسن جان نے اس جہاد کو حرام اور بغاوت قرار دیا تو خود ان کے مسلک کے بہت سارے بڑوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔ بعدازاں مولانا حسن جان ٹی ٹی پی کے ہاتھوں شہید ہوئے ان کا جرم ٹی ٹی پی کی جہادی فہم کو حرام اور بغاوت قرار دینا تھا۔
ڈاکٹر سرفراز حسین نعیمی شہید اور پروفیسر طاہرالقادری کے اس جہادی فہم کے خلاف فتوے بعد کی بات ہیں۔ سرفراز نعیمی اپنے فتوے کی وجہ سے شہید ہوئے۔ پروفیسر طاہرالقادری نے بیرون ملک قیام کو ترجیح دی۔
معاف کیجئے گا بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ بنیادی سوال یہ ے کہ چند دن قبل تک تو مفتی نور ولی محسود کہہ رہے تھے کہ نفاذ اسلام کے لئے اپنی جدوجہد کے درست اور عین جہاد اسلامی ہونے کے حوالے سے وہ امارات اسلامی افغانستان کے فقہا سے رہنمائی لے چکے۔
ایک مرحلہ پر (پچھلے برس) خود بعض افغان رہنما یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جدوجہد ویسی ہی ہے جیسی افغان طالبان نے 20سال امریکہ کے خلاف کی۔ گزشتہ برس ہی افغان طالبان کے توسط سے ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات شروع ہوئے تھے۔
ان مذاکرات میں ٹی ٹی پی کی قیادت نے 6مطالبات رکھے ان 6میں سے اہم ترین مطالبات میں سے ایک بارڈر سکیورٹی سے فوج کو ہٹاکر ایف سی وغیرہ کی تعیناتی، سابق قبائلی علاقوں کے پرانے انتظام کی بحالی اور ان میں ٹی ٹی پی کی شرعی عملداری کو تسلیم کرنا، ساتھیوں کی رہائی (اس میں لگ بھگ 130افراد رہا بھی کئے گئے) اور ٹی ٹی پی کے جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندانوں کے لئے معاوضہ کی ادائیگی بھی شامل تھی۔
کابل مذاکرات اس وقت کی حکومت کے بعض معاملات میں سپر ڈالنے کے باوجود کامیاب نہ ہوپائے ۔ اس کے لئے فریقین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے چلے آرہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کی آڑ میں خود کو منظم کرنے کے لئے وقت حاصل کیا اور اسی عرصہ میں اپنی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
پچھلے برس اکتوبر میں ٹی ٹی پی نے جہاد عام کا اعلان کرتے ہوئے دہشت گردی کے نئے سلسلے کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہے۔ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کا اپنے ہم مسلک دیوبندی علماء کو خط اور مفتی تقی عثمان کا جواب دونوں اپنی جگہ اہم ہیں ۔ اب کیا مفتی نور ولی، مفتی تقی عثمانی کے جواب پر جہاد ترک کردیں گے؟ یہ اہم سوال ہے۔
اس سے اہم سوال یہ ہے کہ مسلم مکاتب فکر کی تکفیر سے شروع ہوئی دہشت گردی میں ملوث تنظیمیں کیا تکفیر کو ترک کردیں گی؟
ان دونوں سے اہم ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ کیا جب تک مسلم مکاتب فکر کی کتابوں میں ایک دوسرے کی تکفیر کے دروس اور پچھلے ایک سو سال میں ایک دوسرے کے خلاف جاری ہوئے کفروارتداد کے فتاوے موجود ہیں۔ اصلاح احوال کی کوئی صورت بن سکتی ہے؟
یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ مفتی تقی عثمانی کے جواب یا وحدت کانفرنس کے اعلامیہ سے بہتری آسکتی ہے۔ وحدت کانفرنس کے اعلامیہ میں کوئی نئی بات نہیں کی گئی لگ بھگ ڈیڑھ دو برس قبل ایوان میں منعقدہ کانفرنس کےبعد جاری کئے جانے والے "پیغام پاکستان” میں میں بھی تقریباً یہی باتیں کی گئی تھیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک تکفیری فہم اور فتوئوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتی معاملات بہتر ہوں گے نہ ہی گروہی تشدد کو جہاد قرار دینے کی سوچ ختم ہوپائے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر