وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ روز ہوئے، آپ کے نیاز مند نے عرض کی تھی کہ اس نے جوانی میں پاکستان کیوں نہیں چھوڑا اور اب بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ اخبار کا صفحہ ذاتی مکتوب نہیں ہوتا نیز یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ممکنہ حد تک متنازع نکات سے گریز کیا جائے۔ اس احتیاط سے مراد سچائی کی پردہ پوشی یا جھوٹ بولنا نہیں بلکہ کسی ممکنہ دل آزاری سے گریز ہوتا ہے۔ اب مگر کچھ ایسی صورت حال آن پڑی ہے کہ کچھ ان کہے نکات بیان کرنا ہوں گے۔ حبیب جالب نے شہر خرابی کی دہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے‘۔ دوسری عالمی جنگ میں ژاں پال سارتر نے نازی فوج کی قید بھی کاٹی اور رہائی کے بعد مزاحمت میں براہ راست حصہ بھی لیا۔ اگست 1944 میں پیرس آزاد ہونے کے بعد سارتر نے The Atlantic میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا کلیدی جملہ آزادی اور مزاحمت میں تعلق بیان کرتا ہے۔ Never were we freer than under the Nazi occupation ۔ سارتر دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ جب آپ کو حقوق سے محروم کر دیا جائے، فکر و عمل کی آزادیوں پر قدغن لگا دی جائے، آپ کا اظہار چھین لیا جائے، اپنے ایقان کے منافی اقدار اپنانے پر مجبور کیا جائے، جب آپ کی زندگی بے معنی حادثوں کی نوک پر لرز رہی ہو، جب آپ کو نا انصافی کی نشان دہی سے روک دیا جائے تو حقیقی معنوں میں معلوم ہوتا ہے کہ خارجی جبر کے مقابلے میں آپ کس حد تک اپنی داخلی آزادی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اسی سے فرد اور معاشرے کی ٹھیک ٹھیک قامت متعین ہوتی ہے۔
سارتر اور اس کے ہم وطنوں کو بیرونی قبضے کی آزمائش درپیش تھی۔ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ امتحان یہ ہوتا ہے کہ خود اپنی ہی زمین پر اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں بنیادی آزادیوں کی نفی سے واسطہ پڑے۔ غیرملکی حملہ آور کی جارحیت متعین خد و خال رکھتی ہے۔ داخلی گھٹن شہری کے سینوں میں ان دیکھی ناکہ بندی کر دیتی ہے۔ کبھی موقع ملے تو سابق سوویت یونین کے کسی روسی شہری سے Samizdat Literature کا مطلب پوچھئے گا۔ درویش اپنا تقابل سارتر سے نہیں کر رہا، صرف یہ عرض ہے کہ امریکا میں ہینری پیٹرک ہو یا فرانس میں والٹیئر، برطانوی نژاد تھامس پین ہو یا فلسطینی نژاد ایڈورڈ سعید۔ اکثریت کے جبر کے بالمقابل ذہنی آزادی کا چراغ جلانا مشترکہ انسانی میراث ہے۔ ذہن انسانی کی داخلی توانائی وہ کائناتی قوت ہے جسے جبر اور تشدد کی کوئی صورت زیر نہیں کر سکتی۔ عرصہ ہوا، ایبٹ آباد کے مضافات میں ایک قبر کا شکستہ کتبہ دیکھا تھا۔ گل شیر مندوخیل کا نام قریب قریب مٹ چکا تھا لیکن صاحب قبر کے نام کے ساتھ خدائی خدمت گار لکھا تھا اور 1930 کی کوئی تاریخ درج تھی۔ جینے کے لیے پاکستان کے انتخاب کی اس سے بہتر وجہ کیا ہو سکتی ہے کہ گل شیر مندوخیل کی روایت میاں افتخار حسین، لالہ افضل خان، مشعل خان کے باپ اقبال خان اور سبین محمود تک چلی آتی ہے۔ اب ایک خبر پڑھئے۔
2022 ءمیں 765000 پاکستانی تعلیم یافتہ نوجوان وطن چھوڑ گئے جن میں سے 92000 نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ 2021 ءمیں ترک وطن کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 225000 اور 2020 ءمیں 288000 تھی۔ 2022 ءمیں پاکستان چھوڑنے والے 736000 افراد نے خلیجی ریاستوں کا رخ کیا۔ حیران کن طور پر یورپ اور مشرق بعید جانے والوں کی تعداد صرف چالیس ہزار تھی۔ یورپ جانے والوں میں نصف سے زیادہ نوجوان رومانیہ، یونان، سپین اور اٹلی پہنچے۔ قرین قیاس ہے کہ ان افراد کی بڑی تعداد بالآخر وسطی یورپ پہنچنے کی کوشش کرے گی۔ گزشتہ برس ترک وطن کرنے والے نوجوانوں میں 5534 انجینئر، 18 ہزار ایسوسی ایٹ انجینئر، 2500 ڈاکٹر، 2000 کمپیوٹر ماہرین، 6500 اکاﺅنٹنٹ، 900 اساتذہ، 12000 کمپیوٹر آپریٹر اور 1600 نرسیں شامل تھیں۔ غیر ہنرمند تارکین وطن میں 213000 افراد صرف ڈرائیونگ جانتے تھے۔ جس ملک میں پچھتر فیصد آبادی محض پرائمری پاس ہے، وہاں سے 92000 اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا ایک برس میں ملک چھوڑ جانا ایک المیہ ہے۔یہ تو وہ خوش نصیب ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے تلاش معاش میں وطن چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ ذرا معلوم کیجئے گا کہ پاکستان میں بیرون ملک جانے کے خواہش مند نوجوانوں کی شرح کیا ہے۔
اجنبی دیاروں کی خاک چھاننے والے ان پاکستانیوں میں سے بیشتر برس ہا برس کابک نما کمروں میں گزر اوقات کریں گے۔ مقامی باشندوں کی تحقیر کا نشانہ بنیں گے۔ اس صورتحال کا سادہ پس منظر یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں ان نوجوانوں کے لیے روزگار، تحفظ اور خوشی کی کوئی کرن باقی نہیں رہنے دی۔ جہاں تک تعلیم یافتہ افراد کا تعلق ہے تو پاکستان کی معیشت اور معاشرہ اپنے نوجوان شہریوں کی صلاحیت جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہم نے نوجوان نسل کے خواب دریا برد کر دیے ہیں۔ ماہرین معیشت اس صورت حال کو برین ڈرین یعنی ذہانت کا زیاں قرار دیتے ہیں۔ اس سے معیشت اور تمدن مجموعی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ پاکستان کے ان بیٹے اور بیٹیوں کے لیے واحد محرک تلاش معاش نہیں۔ آج کا نوجوان ہم عصر دنیا سے باخبر ہے۔ ہمارے ملک میں ریاستی تحفظ، معاشرتی اطمینان اور انفرادی خوشی کے بندوبست کا اندازہ صرف دو اشاریوں سے جان لیجیے۔ Global Innovation Index 2022 کے مطابق 132 ممالک میں پاکستان کا درجہ 87 اور بھارت کا درجہ 40 ہے۔ اسی طرح Global happiness Index 2022 کے مطابق پاکستان کا درجہ 121 ہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر خوشی ہو کہ اس اشاریے میں بھارت 136 نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ایک برس میں 788000 باصلاحیت نوجوانوں کے پاکستان چھوڑ جانے پر میں تو عشرت آفریں کا مصرعہ ہی دہراﺅں گا۔ ’بجرے دریا پار خزانے اپنے ڈھو لے جاتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر