نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پلے نہیں دھیلا۔۔۔||رؤف کلاسرا

آپ تصور کریں کہ دنیا کی آٹھ ارب آبادی ایک جیسا سوچنا شروع کر دے‘ ایک جیسے کپڑے جوتے پہن لے‘ ایک ہی زبان بولے اور ایک ہی انسان کو سات ارب لوگوں کا لیڈر مان لے تو آپ کو یہ دنیا کیسی لگے گی؟

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ سے ایک پیارے بھائی کا میسج تھا کہ ابھی آپ کا پروگرام دیکھا‘ آپ تو عمران خان کے خلاف ہیں۔ پہلے ان کے ایسے کمنٹس پر تفصیلی جواب دیتا تھا پھر اندازہ ہوا کہ کوئی فائدہ نہیں۔ جب تک لوگ خود کسی پسندیدہ انسان کا تجربہ نہ کر لیں‘ وہ اپنے خیالات نہیں بدلتے۔ خیر ان کی مہربانی‘ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آپ بک گئے ہیں۔ جو مجھے بکا ہوا نہیں سمجھتے‘ وہ گمراہ سمجھتے ہیں۔ ان سب کے نزدیک کسی کے ہدایت یافتہ ہونے کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ وہ بندہ عمران خان کا کتنا بڑا فین ہے اور ان کی ہر غلط‘ درست بات کا کتنے دل و جان سے دفاع کر سکتا ہے۔ عمران خان سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے آپ کو گجر خاندان سے لے عثمان بزدار اور پاک پتن کے مانیکا خاندان تک سب کا دفاع کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ بک گئے ہیں یا گمراہی آپ کا مقدر ہے۔ ان سب کے نزدیک عمران خان جو کر رہے ہیں‘ وہی سب ٹھیک ہے اور جو ان پر تنقید کرتے ہیں‘ وہ سب گمراہ۔
میں ان چند لوگوں میں ہوں جنہوں نے اپنے تئیں پوری ایمانداری سے خان صاحب کی گورننس پر سوالات اٹھائے اور سٹوریز کیں۔ خان صاحب کے اردگرد جو لوٹ مار ہورہی تھی جس میں بعد میں انہوں نے خود بھی توشہ خانے کے ذریعے شرکت کی‘ اس پر بات کی جو کسی بھی صحافی کا کام ہے۔ ہاں‘ اگر آپ صحافی کیساتھ ساتھ کسی سیاسی جماعت کے ورکر بھی بن چکے ہیں تو پھر آپ کا کاں (کوا) چٹا ہی رہے گا۔ خان صاحب کے فین کلب کا خیال ہے کہ خان صاحب اُن کی نسلوں کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ خان کی اس جنگ سے چاہے اُن کی نسلیں سنوریں یا نہ سنوریں لیکن بزدار‘ مانیکا اور گجر خاندان کی سات نسلیں ضرور سنور گئیں۔ میں اپنے ایسے تمام دوستوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ مجھے کیا پڑی تھی کہ میں خان پر تنقید کرکے اپنا ”بزنس‘‘ خراب کروں یا آپ لوگوں کی بری بھلی باتیں سنوں۔ میں کیوں نا وہی سودا بیچوں جس کے گاہک موجود ہیں۔ رَج کے خان کے ہر الٹے سیدھے کام اور فیصلوں کی سپورٹ کروں۔ پھر دیکھیں کیسے پیسہ بنتا ہے۔ لوگ بھی جلد بھول جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد پھر کوئی نئی کہانی پکڑ یں اور پھر شروع ہو جائیں اور دن رات ایک ہی بندے کی اتنی خوبیاں بتاتے رہیں کہ وہ خود بھی حیران اور ششدر رہ جائے کہ کیا میرے اندر واقعی اتنی خوبیاں موجود ہیں؟
پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے بڑے اچھے انداز میں یہ کام کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر پیسہ کمانا ہے تو پھر خان کے قصیدے پڑھو۔ یوں پاپولر جرنلزم عروج پر ہے۔ لوگوں کو وہی سناؤ جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ اگر آپ اپنی عزت بچانا چاہتے ہیں تو پھر عمران خاں کے درباری بن جائیں ورنہ خان کے فین آپ کا جینا حرام کر دیں گے۔ جمہوریت میں ہر بندہ اپنی رائے دے سکتا ہے۔ اگر آپ اس رائے کو اچھا سمجھتے ہیں تو اس کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ اچھی نہیں لگتی تو اسے اگنور کر دیں۔ لیکن یہاں ایک تیسرا درجہ بھی ہے کہ اگر آپ کی رائے مجھے پسند نہیں یا میرے نظریات کے خلاف ہے تو پھر آپ میرے دشمن ہیں یا بک چکے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جمہوریت کائنات کی تخلیق کے نظریے یا انسان کے اپنے مزاج کے مطابق ہے۔ آپ تصور کریں کہ دنیا کی آٹھ ارب آبادی ایک جیسا سوچنا شروع کر دے‘ ایک جیسے کپڑے جوتے پہن لے‘ ایک ہی زبان بولے اور ایک ہی انسان کو سات ارب لوگوں کا لیڈر مان لے تو آپ کو یہ دنیا کیسی لگے گی؟
چلیں آٹھ ارب چھوڑیں‘ آپ پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کی بات کر لیں کہ سب کی ایک جیسی شکلیں ہوں‘ ایک ہی زبان بولتے ہوں‘ ایک ہی کلچر ہو‘ ایک ہی جیسی سوچ اور صرف ایک ہی لیڈر ہو تو آپ کو یہ معاشرہ کیسا لگے گا؟ جب فطرت یا قدرت نے Diversity کو ہی کائنات کی بنیاد بنایا ہے تو پھر ہم سب مسلسل کیوں اس کوشش میں ہیں کہ سارے لوگ وہی کریں جو میں چاہتا ہوں۔ اب اس اپروچ کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ عمران خان جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ عمران خان نے اس عوامی سپورٹ کی بنیاد پر ایسے غلط فیصلے کیے کہ اب وہ پلستر باندھ کر اندر بیٹھے ہیں اور ان کے ورکرز زمان پارک کے باہر پہرہ دے رہے ہیں کہ کہیں ان کے خان کو گرفتار نہ کر لیا جائے۔ان کی پارٹی آج شدید مشکلات کا شکار ہے۔ وجہ وہی ہے کہ خان نے جو اب تک کیا یا کررہے ہیں‘ وہ سب نے آخری سچ مان لیا ہے۔ مان لیا خان کا ووٹ بینک بڑھ گیا لیکن اگر اس ووٹ بینک کے سہارے آپ دوبارہ حکومت نہ بنا پائیں تو ایسے ووٹ بینک کا کیا فائدہ؟ ابھی ایک شاندار صحافی کامران یوسف نے بڑی خبر بریک کی ہے کہ پاکستان کے اہم سفارت کاروں کی طرف سے بھیجی گئی رپورٹس کے مطابق دنیا کے اکثر ممالک عمران خان سے ناخوش ہیں اور اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم بنے تو وہ ممالک پاکستان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ تو کیا ان سب ممالک نے میرے یا میرے جیسے چند اینکرز یا صحافیوں کے ٹی وی شوز دیکھے ہیں کہ ہماری باتوں سے متاثر ہوکر وہ بھی خان کے خلاف ہوگئے ہیں؟
ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے یہ ممالک کون ہوتے ہیں پاکستان کے وزیراعظم کا فیصلہ کرنے والے۔ بالکل ٹھیک بات ہے۔ لیکن جس ملک کا خرچہ اسی ارب ڈالر (امپورٹ) ہو اور کمائی (ایکسپورٹ) صرف تیس ارب ڈالرز ہو تو وہ ملک دوسروں کا محتاج ہی ہوگا۔ تیس ارب ڈالرز بیرونِ ملک پاکستانیوں کا زرِمبادلہ ملا کر کل 60ارب ڈالرز بنتے ہیں۔ اب بتائیں ایکسپورٹ اور امپورٹ میں 20ارب ڈالرز کا فرق آپ کہاں سے پورا کرتے ہیں؟ جن ملکوں سے خان صاحب کی اَن بن ہوگئی تھی‘ وہی پاکستان کو امداد دیتے ہیں تاکہ یہ ملک سانس لیتا رہے۔ اس دفعہ ان ملکوں نے ذرا ہاتھ کھینچا تو آپ کی حالت یہ ہے کہ دوائیاں منگوانے کے لیے بھی ڈالرز نہیں ہیں۔ کراچی پورٹ پر کنٹینرز پھنسے پڑے ہیں۔ ایک طرف ہم کل 60ارب ڈالرز کماتے ہیں اور اس میں سے 50ارب ڈالرز کا تیل اور گیس خریدا جاتا ہے جبکہ 10ارب ڈالرز کی گندم‘ کاٹن‘ دالیں‘ چینی اور پام آئل منگوا لیا جاتا ہے۔ یہ 10ارب ڈالرز ہم بچا سکتے تھے اگر ہم اپنی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے نہ کرتے۔ اب بتائیں جس ملک کا صرف پٹرول‘ ڈیزل اور ایل این جی کا بل 50ارب ڈالرز ہے اور کل ایکسپورٹ 30ارب ڈالرز ہیں‘ وہ دنیا کو کیسے آنکھیں دکھا سکتا ہے؟
ہر وقت بھارت کی مثالیں دینے والے بھول جاتے ہیں کہ اس وقت وہاں صرف آئی ٹی ایکسپورٹ ایک سو تیس ارب ڈالرز کے قریب ہیں اور ان کے پاس چھ سو ارب ڈالرز سے زیادہ ریزروز میں رکھے ہیں اور ہمارے پاس شاید چند ارب بچے ہیں‘ وہ بھی سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارت کے ہیں۔ لیکن ہماری اکڑ ہی ختم نہیں ہوتی جیسے پوری دنیا ہم سے قرض لے کر چلتی ہے اور ہم خود کو ”اپُن ہی بھگوان ہے‘‘ سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کے کمالات دیکھیں اور ہم پاکستانیوں کو داد دیں۔ جب پاکستانی ایک ایک ڈالر کے لیے ذلیل ہو رہے ہیں‘ اس وقت انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز کی 2200گاڑیاں بیرونِ ملک سے پاکستان منگوائی گئی ہیں۔ عمران خان کا دور تھا تو انہوں نے پشاور سے اپنے ایک تگڑی اے ٹی ایم کو چین سے لاکھوں ڈالرز کے بدلے چالیس ہزار گاڑیاں منگوانے کی اجازت دی تھی۔ ہمارے ہاں ڈالرز قرض لے کر ان کے عوض گاڑیاں باہر سے خریدنے کا مرض پرانا ہے۔ ایک طرف کھانے کو آٹا نہیں اور دوسری طرف اِسی عوام نے چھ ماہ میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز کی گاڑیاں منگوا لی ہیں جو عظیم بننے کے لیے بے چین ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author