یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نور مقدم تھی، جس کا گلا اُس کے سفاک بوائے فرینڈ نے کاٹ دیا، آدھا معاشرہ اُس کے حق میں تھا، اور آدھا معاشرہ بے بس۔ ایک اور خاتون تھی جو آدھی رات کو سیالکوٹ موٹر وے پر کچھ مردوں کے ہاتھ چڑھ گئی اور کمسن بچوں کی موجودگی میں جنسی دہشت گردی کا نشانہ بنی۔
زیادہ تر لوگ مجرموں یا ملزموں کو الٹا لٹکانے، خصی کرنے، سر عام پھانسی دینے، ٹکڑے ٹکڑے کرنے، اذیت دے دے کر ہلاک کرنے کی خواہشات اور مطالبات کرنے لگے۔
بے نظیر مینارِ پاکستان پر پہلے جلسے میں سٹیج کی طرف جا رہی تھی تو کسی نے پیچھے سے اُس کے کولہوں پر ہاتھ پھیرا۔ نواز شریف کو جوتا مارا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان کا گریبان تار تار کیا گیا۔
آج ایک بریانی والا موٹر سائیکل پر کچھ سامان لے کر جا رہا تھا تو ایک سپورٹیج سے ٹکر لگی، گاڑی کے مالک نے اُس کی بریانی کا بڑا سا لفافہ بطور انتقام سڑک پر ہی لٹا دیا۔
کرشن نگر میں ایک نوجوان لڑکیوں کے سکول میں چھٹی کے وقت اپنے گھر کے جھروکے میں کھڑا ہو جاتا تھا، جونہی لڑکیاں گزرتیں تو کوئی آواز نکال کر متوجہ کرتا اور اپنی دھوتی آگے سے اٹھا دیتا۔ اب کئی گرلز کالجز کے سامنے ایسا ہوتا ہے، اِسے فلیشنگ کہتے ہیں۔
ایسی ہی ایک ہزار مثالیں مل جائیں گی۔ کل وِل ڈیورانٹ کو ترجمہ کرتے ہوئے سمجھ آئی کہ جن گروہوں میں رواج مضبوط ہو وہ تہذیب سے دور ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے رواج کی جگہ قانون لیتا جاتا ہے، ویسے ویسے معاشرہ مہذب کی منازل طے کرتا ہے۔
ہم ابھی تک رواج (یعنی پختہ ہو چکی وحشیانہ عادات) کے زیرِ اثر ہیں۔ جسے ہم محفوظ رکھنے کی خاطر ہر حیلہ کرتے ہیں۔ عدالتوں میں قتل اِس لیے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں رواج عزیز ہے۔ نور مقدم بھلا دی جاتی ہے، ریپ ہونے والی عورت پر ہی دشنام طرازی کی جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بحث میں منہ بند کروانا، شرمندہ کرنا، ذلیل و رسوا کرنا، اگر بس میں ہو تو دو لگا دینا، یہ سب ہمارا رواج ہے۔
ہم اکثر عدالتوں کو بھی ’اخلاقی تقاضوں‘ کی بات کرتے سنتے ہیں۔ یہ اخلاق وہی رواج ہے جس میں قانون بے معنی ہو جاتا ہے۔ قانون تو ہمیں نوآبادی بننے کی وجہ سے ملا، اور جنھوں نے یہاں ایک دو سو سال حکومت کی، اُنھوں نے آپ کو ہلنے بھی نہ دیا۔ بس 1857ء کی ہلکی سی کھٹ پٹ ہی ہوئی۔
تھوڑا غور کریں تو یہ بھی سمجھ آ جائے گی کہ عمران خان اتنے عرصے سے جرگہ سسٹم کی حمایت کیوں کر رہا ہے۔ وہ تہذیب کی جانب ہماری کسی بھی پیش رفت کے حق میں نہیں۔ وہ ہمارا تاریک سایہ ہے، ہمارے ساتھ ساتھ رہے گا۔
(پس تحریر: کلچر کا نیا عشق بھی رواج کو جاری رکھنے کی ایک اور صورت ہے)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر