یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر اقبال نے جیسا ناروا اور تحقیر بھرا سلوک اردو غزل کے ساتھ کیا ہے، ویسا ہی آفتاب اقبال نے مہدی حسن سے کیا ہے۔
اس ناہنجار، عقل دشمن، موسیقی دشمن، آرٹ دشمن معاشرے کو چاہیے کہ مہدی حسن کی اہمیت انڈیا سے پوچھیں۔ وہ تو غلام علی کو بھی سر پہ بٹھاتے ہیں۔
نقالی (mimicry) اور مزاح ایک چیز ہے اور تذلیل وغیرہ بالکل دوسری چیز۔ جب بھی عظیم شعر کا ذکر آئے تو یہ شخص فٹ اپنے باپ یا اُس کے حلقے کے کسی بندے کا شعر ہی سناتا ہے۔ اِسے اپنی بندوقیں اور شوق گنوانے کا بھی جنون ہے۔ حکومتوں کو بھی مشورے دیتا ہے، لیکن موسیقی کے غروب ہو چکے مگر کہیں اور روشن آفتابوں کو بھی ظفر اقبال کا یہ آفتابہ پامال کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار عارف صاحب فصیح البیان، وسیع المطالعہ اور بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ ایک بار اُنھوں نے میرے عالمی انسائیکلوپیڈیا کی تقریب رونمائی میں کہا: ’’یاسر جواد اور ہی طرح کے آدمی ہیں۔‘‘ یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ اِس ’’اور ہی طرح‘‘ میں اُنھوں نے سب کچھ کہہ دیا تھا۔ تقریب کے آخر میں اُنھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کچھ کہنا چاہتا ہوں؟ میں نے کہا، نہیں سر اتنی اچھی تقریب ہوئی ہے، خود ہی بول کر اِسے کیوں خراب کروں۔
آج وہ اسلام آباد سے جہلم گئے تو بک کارنر پر اُن کی موجودگی کی اطلاع ملی، جس پر میں نے امر شاہد سے درخواست کی کہ ’’نظریات کی مختصر تاریخ‘‘ اُنھیں پیش کر دیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر بڑے آدمی کے بہت سے دشمن ہونا فطری بات ہے۔ افتخار عارف کے بھی ہوں گے۔ وہ کیسے بڑے آدمی ہے، یہ میں جانتا ہوں، نہ کہ اُن کے کام چور ماتحت ’افسران۔‘ آپ کو بھی شاید اُن سے اختلاف ہو۔ لیکن میں اُن کی مخالفت میں کوئی بات نہیں سنتا، وہ اتنے اچھے دوست ہیں کہ میں خود اُن کی مخالفت میں بات کر لوں گا، اگر کبھی ضرورت پڑی۔
اُن کا دم غنیمت ہے۔ اُنھیں اور اُن جیسے تین چار دیگر کو منفی کر کے ذرا منظر کا جائزہ لیں تو پیچھے مشاعرہ باز، پھیکے، جاہل، لاعلم، عقلی طور پر بدنما شاعر ہی ملیں گے۔
آرزو ہے کہ وہ اپنی آپ بیتی لکھیں یا ریکارڈ کروائیں، لیکن سوالات میں پوچھوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے سماج کی مفصل تاریخ، جلد 75
کبھی سوچا تھا کہ پاکستان کی ہفتہ بہ ہفتہ سماجی تاریخ مرتب کروں گا کیونکہ اندھیرا بہت محسوس ہوتا تھا۔ مگر اب وہ سارا اندھیرا گاڑھا اور دبیز اور کثیف ہو کر لیس دار تارکول بن گیا ہے۔ اب کہیں سے سورج کی کوئی کرن آ بھی جائے تو وہ مزید لجلجا اور چپچپا بن جاتا ہے۔
سارے گیسوؤں اور داڑھیوں، پلوؤں اور پائنچوں، شلواروں کے آسنوں اور بلاؤزوں، نہروں اور باغوں، وغیرہ پر یہ گجگجا سیال بہتا محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ کہیں سے کوئی بہتری کی اُمید ثابت کر سکیں تو پانچ ہزار روپے نقد انعام دینے کو تیار ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر