حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کی ابتر معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کا کہنا ہے کہ غلط پالیسیوں کی بدولت معیشت زوال کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 1990ء تک شرح نمو بھارت اور بنگلہ دیش سے دوگنا تھی آج روبہ زوال کیوں ہے۔
ادھر گزشتہ روز اڑھائی برس بعد سٹاک مارکیٹ میں بڑی مندی کی بدولت سرمایہ کاروں کے 200 ارب روپے ڈوب گئے۔ انڈیکس 39000کی سطح سے بھی نیچے آگیا۔
گزشتہ روز ہی فیول ایڈجسٹمنٹ کے پرانے حساب میں بجلی 4روپے 46پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی دوسری طرف مہنگائی میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہوتے اضافے پر عام شہری کہتے دیکھائی دیتے ہیں کہ مہنگائی کی موجودہ شرح گردن توڑ بخار سے بھی خطرناک ہے۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر سے صرف سٹاک مارکیٹ ہی بری طرح متاثر نہیں ہوئی بلکہ معیشت کی عمومی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صنعتی پیداوار میں 3.58فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ پیداواری عمل میں ہوئی اس کمی سے محنت کش طبقہ بری طرح متاثر ہوا۔
صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے شدید صنعتی بحران کے باعث ہزاروں افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔ لاہور چیمبرز آف کامرس کے مطابق صرف ایس ایم ایس سیکٹر میں آٹو پارٹس بنانے والے 300صنعتی یونٹس بند ہوچکے ہیں۔ چیمبر کے صدر کاشف منصور کہتے ہیں معاشی پالیسی کا کوئی سر ہے نہ پیر۔
ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) نہ کھلنے کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کے پاس 3ہفتوں کی درآمدات کے مساوی زرمبادلہ رہ گیا ہے۔ عالمی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
حکومتی ذرائع ڈیفالٹ کے خطرے کی مسلسل تردید کرہے ہیں لیکن ایل سیز کھلنے پر پابندی کے باعث جنم لینے والے صنعتی بحران نے مسائل کی سنگین میں جس طرح اضافہ کیا ہے ان پر قابو پانے کی کوئی حکمت عملی وضع کی گئی ہے تو اس پر عمل کب ہوگا یا اس میں بھی زبانی جمع خرچ سے ہی جی بہلایا جارہا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینے کی بجائے ارباب اختیار خامشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایل سیز کھولنے پر پابندی کی وجہ سے تھرمل پاور کمپنیوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی جس سے بجلی کی 2750میگاواٹ کی طلب کے مقابلہ میں سپلائی 2100 میگاواٹ بتائی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوڈ مینجمنٹ کا دورانیہ 2گھنٹے سے بڑھاکر 3گھنٹے کردیا گیا۔
گزشتہ شب وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار اور آئی ایم ایف کے نمائندوں میں جنیوا میں ہوئی حالیہ ملاقات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستانی موقف سے اتفاق کرتے ہوئے جائزہ پروگرام کو جلد مکمل کرنے کا عندیہ دیا۔ عین ممکن ہے کہ وزیر داخلہ کا موقف درست ہو لیکن آئی ایم ایف کے ذرائع اس کی تصدیق سے گریزاں ہیں
جبکہ بعض معاشی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کے معاشی اقدامات سے مطمئن نہیں۔ تقاضا کیا جارہا ہے کہ حکومت پچھلے جائزہ پروگرام کی شرائط پر عمل کرے۔
ان ماہرین کے بقول اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو مہنگائی بڑھنے کے ساتھ صنعتی عمل مزید متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ حکومت دونوں معاملات کو سنبھال نہیں پائے گی۔
سیاسی عدم استحکام سے پیدا ہوئے مسائل سے صرف نظر غیرمناسب ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی استحکام کے لئے جس سنجیدگی اور اقدامات کی ضرورت ہے اسے اہمیت نہیں دی جارہی۔ ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں ڈالر کی سرکاری قیمت 260 روپے تک پہنچ جائے گی۔
فی الوقت بھی بینک ریٹس اور مارکیٹ ریٹس میں جو فرق دیکھنے میں آرہا ہے اسے یکساں سطح پر لانے کے اقدامات کا اولاً تو کوئی امکان نہیں لیکن اس ضمن میں کوئی قدم اٹھایا بھی جاتا ہے تو اس فرق کو کم سے کم کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ صنعتی و تجارتی شعبوں کے ذمہ دا ران حکومت کو صورتحال کی سنگینی میں مسلسل اضافے کی جانب متوجہ کرتے چلے آرہے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ ان گھبمیر مسائل سے صرف نظر کی پالیسی پیش نظر ہے۔
یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ پی ڈی ایم کی موجودہ وفاقی حکومت جن دعوئوں اور وعدوں کے دھوم دھڑکے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی ان میں سے ایک دعویٰ پورا ہوا نہ وعدہ بلکہ اس عرصہ میں معاشی ابتری اور مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری میں ہونے والے خوفناک اضافے نے تجربہ کاری کے دعودیداروں کی اہمیت کا بھانڈا پھوڑیا۔
سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے بیرونی امداد کے حالیہ اعلانات کو معاشی استحکام کے طور پر پیش کرنے والے حکومتی ماہرین کے پاس بھی اس سوال کا جواب بہرطور نہیں ہے کہ 33ارب ڈالر کے مجموعی نقصان کی تلافی لگ بھگ 9ساڑھے 9ارب ڈالر کی امداد کے اعلانات سے کیسے ہوگی۔ یہ کہنا اپنی جگہ درست ہی ہوگا کہ پی ڈی ایم کے معاشی جادوگر کارکردگی کے مظاہرے میں قطعی ناکام رہے اس کھلی ناکامی نے ان کے حوالے سے ماضی کے اس تاثر کو مزید پختہ کیا کہ قبل ازیں وزارت کے دونوں ادوار میں انہوں نے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے مستحکم معیشت کا جو نقشہ بنارکھا تھا اب وہ اس طرح کا رنگ بھی نہیں جماپائے۔
بہرطور اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک غیرپیداواری شعبوں کے اخراجات میں کمی نہیں لائی جاتی اصلاح احوال کی صورت ممکن نہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس منتخب ایوان میں معاشی و سیاسی عدم استحکام پر کھل کر بحث ہونی چاہیے اس ایوان میں مذہبی قانون سازی سے جی بہلایا جارہا ہے۔
مقدسات کا احترام بلاشبہ سماجی وحدت کے تحفظ کے لئے ضروری ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں مذہبی قانون سازی سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لانے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے۔
اندریں حالات اگر لوگوں کا ایک طبقہ یہ کہتا دیکھائی دیتا ہے کہ سیاسی و معاشی استحکام کی حکمت عملی وضع کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے تو اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ رائے کیوں بنی۔
پچھلے دس ماہ کے دوران پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے کیا کیا اس سوال کا جواب عوام کو ضرور دیا جانا چاہیے کیونکہ اسی عرصہ میں جنم لینے والی سیاسی و معاشی ابتری نے عام آدمی کو مستقبل کے حوالے سے شدید مایوس کیا ہے۔
اس مایوسی کا ازالہ اگر سیاسی مفاہمت اور وقت سے پہلے انتخابات سے ممکن ہے تو اس سے صرف نظر نہ کیا جائے بلکہ حقیقت پسندی کے مظاہرہ کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
اسی طرًح حکومت کا فرض ہے کہ وہ روزمرہ کے مسائل کے حل کے لئے بھی موثر اقدامات کرے تاکہ کم از کم عوام کو کچھ تو بہتری کے آثار دیکھائی دیں۔ امید واثق ہے کہ ارباب اختیار عوام سے حقائق چھپانے کی بجائے انہیں اعتماد میں لیں گے اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ سیاسی عمل اور نظام کسی انہونی سے دوچار نہ ہونے پائے۔ ہم امید ہی کر اور رکھ سکتے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر