دسمبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچپن کے دوست کیوں یاد آتے ہیں؟ ۔۔۔مبشرعلی زیدی

ایک دن میں کوئی کام نمٹاکر گھر آرہا تھا کہ راستے میں منا ملا۔ میں نے رسماً خیریت پوچھی۔ اس نے بتایا کہ اسے دل کا عارضہ لاحق ہے اور چند دن بعد آپریشن ہے۔

وائس آف امریکا کے لیے جب ریڈیو کی کوئی رپورٹ بناتا ہوں یا ریڈیو پروگرام کرتا ہوں تو بچپن کا دوست مرید عباس یاد آتا ہے۔

ہم خانیوال کے قائداعظم پبلک اسکول میں پڑھتے تھے۔ پرائمری میں انگریزی کی کسی کتاب میں ایک مضمون ریڈیو پر تھا۔ میڈم شگفتہ قادری ہم سب سے ایک ایک پیراگراف پڑھواتی تھیں۔ مرید عباس کی باری آئی تو اس نے ریڈیو کے بجائے کہا، ریڈوا۔ ہم سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔

میڈم نے تصحیح کی، ریڈیو۔ مرید نے کہا، ریڈوا۔ میڈم نے سختی سے کہا، نہیں ریڈو۔ مرید نے زور سے کہا، جی ہاں ریڈوا۔ میڈم جھنجلا کر بولیں، کتاب بند کرو۔ کہو ریڈیو! مرید نے بہت سوچ کر کہا، ریڈوا۔
ہماری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ میڈم کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ بے چارے مرید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ ٹھیک تو کہہ رہا ہوں۔

واقعی پہلے ریڈیو کو بہت سے لوگ، خاص طور پر دیہات میں رہنے والے ریڈوا کہتے تھے۔ اس دن مرید عباس کو بہت دیر تک کان پکڑ کے کھڑا رہنا پڑا۔ شاید میڈم نے ایک آدھ تھپڑ بھی مارا تھا۔

میں 2009 میں خانیوال گیا تو مرید عباس سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی تھی۔ پتا چلا کہ خانیوال شہر کے نواح میں اس کی زمینیں تھیں۔ اس وقت تک اس نے شادی نہیں کی تھی۔ بعد میں شادی کی لیکن ایک دو سال بعد اس کا انتقال ہوگیا۔

وائس آف امریکا کے لیے جب ریڈیو کی کوئی رپورٹ بناتا ہوں یا ریڈیو پروگرام کرتا ہوں تو مرید عباس یاد آتا ہے۔
۔
جب کرکٹ میچ دیکھتا ہوں، منا یاد آتا ہے۔

کاکا اور منا بھائی تھے اور کراچی کے علاقے انچولی کے قریب اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہمیشہ ساتھ نظر آتے تھے۔ گلی محلے میں گھومتے پھرتے، دوستوں کی محفل میں یا کرکٹ کے میدان میں۔ کرکٹ کھیلنے کے شوقین تھے۔ لڑکے جمع کرکے ٹیم بناتے اور کسی کلب سے میچ رکھ لیتے۔ ایسے میچوں میں دونوں ٹیمیں اپنی اپنی گیند لاتی تھیں۔ جیتنے والی ٹیم دونوں گیندیں لے جاتی تھی۔

مجھے ایک دو میچ دیکھنے کا موقع ملا۔ کاکا بھی اچھا کھلاڑی تھا لیکن منے کی بیٹنگ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ سیدھے بلے سے کھیلتا تھا۔ ایسے بیٹسمین کٹ کم کھیلتے ہیں۔ لانگ آن، لانگ آف اور کور پر زیادہ شاٹ کھیلتے ہیں۔ منا گیپ دیکھ کر گیند نکالتا تھا۔ میں اس کی بیٹنگ سے متاثر ہوا۔

ایک دن میں کوئی کام نمٹاکر گھر آرہا تھا کہ راستے میں منا ملا۔ میں نے رسماً خیریت پوچھی۔ اس نے بتایا کہ اسے دل کا عارضہ لاحق ہے اور چند دن بعد آپریشن ہے۔

میں نے مذاق سمجھ کر ہنسی میں بات اڑادی۔ کرکٹ مشقت والا کھیل ہے۔ بیس سال کا کرکٹر دل کا مریض کیسے ہوسکتا ہے۔

چند دن بعد خبر ملی کہ منے کا آپریشن ٹیبل پر انتقال ہوگیا۔ میں بے یقینی کا شکار رہا۔ کئی سال بعد یقین تب آیا جب ہمیشہ منے کے ساتھ نظر آنے والا کاکا ایک میچ میں تنہا دکھائی دیا۔اس کے بعد سے جب کرکٹ میچ دیکھتا ہوں، منا یاد آتا ہے۔
۔
جب سینما گھر جاتا ہوں، حیدر بھائی یاد آتے ہیں۔

وہ میرے تایازاد بھائی تھے۔ میں کہیں تذکرہ کرچکا ہوں کہ بچپن میں فلم مسٹر افلاطون کا اشتہار دیکھ کر مچل گیا تھا۔ ان دنوں خانیوال میں سینما والے ایک تانگہ کرائے پر لیتے اور نئی فلم کا پوسٹر اس پر لگاکر پورے شہر میں چکر لگواتے۔ کھمبوں پر بھی اشتہار ٹانگ دیتے۔ میں نے فیروزسنز کی چھاپی ہوئی کتاب سو بڑے لوگ نئی نئی پڑھی تھی۔ شاید اس وقت دس سال کا تھا۔ گھر میں بہت ضد کی کہ مسٹر افلاطون فلم دیکھنی ہے۔
سیدوں کا گھرانہ اور فلم۔ توبہ توبہ۔ لیکن امی میری ضد کے آگے مجبور ہوگئیں۔ حیدر بھائی کو بلایا اور مجھے فلم دکھانے کے لیے کہا۔ خانیوال میں دو سینما تھے۔ پیلس اور شبنم۔ حیدر بھائی مجھے شبنم سینما لے گئے۔ فلم شروع ہوئی تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ یونانی کے بجائے پنجابی افلاطون علی اعجاز نظر آئے۔
تب خانیول میں ایک ٹکٹ میں دو فلمیں دیکھی جاسکتی تھیں۔ مجھ سے ایک فلم نہیں دیکھی جارہی تھی۔ حیدر بھائی نے زبردستی دوسری بھی دکھائی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ فلم سنگ دل تھی۔

آج کل میں وائس آف امریکا کے لیے سابق طالب علم رہنماؤں کے انٹرویوز کررہا ہوں اس لیے معلوم ہوا کہ ضیا دور میں طلبہ نے یونینز پر پابندی کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ حیدر بھائی اس زمانے میں کالج میں پڑھتے تھے۔ وہ بھی اس تحریک میں سرگرم تھے اور تایا اس پر خفا ہوتے تھے۔
حیدر بھائی کو بیرون ملک جانے کا بہت شوق تھا۔ اکثر کہتے تھے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا۔ کبھی روس جانے کی خواہش کرتے، کبھی امریکا کی۔ میں یورپ گھوم کر واپس گیا تو انھوں نے کرید کرید کر پیرس کے بارے میں پوچھا۔ میں نے دل سے خواہش کی کہ کاش حیدر بھائی کو یورپ جانے کا موقع ملے۔
انھوں نے ایل ایل بی کیا تھا لیکن پریکٹس نہیں کی۔ کبھی کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کیا، کبھی کوئی چھوٹی موٹی ملازمت لیکن جم کر کچھ نہ کرسکے۔ بہت تاخیر سے، شاید پچاس سال کی عمر میں شادی کی اور بیٹا سال بھر کا تھا کہ اچانک انتقال کرگئے۔

حیدر بھائی عید بقرعید پر نہیں، شب برات یا عرفے کے دن یاد نہیں آتے۔ جب سینما گھر جاتا ہوں، تب یاد آتے ہیں۔

About The Author