حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ محض اتفاق ہرگز نہیں کہ بلاول بھٹو اور ان کی والدہ شہید بینظیر بھٹو کے لئے افغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی اور عمران خان ایک جیسی زبان استعمال کرتے اوریکساں خیال رکھتے ہیں لیکن یہ بات کم از کم ہم ایسے لوگوں کے لئے باعث اطمینان ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کسی بھی شخص کواس کے مذہبی خیالات یا کسی مذہبی شخصیت بارے اس کی رائے کی بنیاد پر ہدف ملامت بنانے کو انتہا پسندی قرار دیا ہے ۔
آصف علی زرداری نے تو دو قدم آگے بڑھ کر عمران خان کے خلاف مذہبی شدت پسندی کے تھڑدلے پن کے مظاہرے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عمران خان سمیت کسی بھی شخص کے خلاف مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینا صریحاً غلط ہوگا۔ کسی شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا سیاست نہیں‘‘۔
یہ سطور لکھتے وقت اس امر کی تسلی کرچکا ہوں کہ عمران خان کے حوالے سے جس ایک ویڈیو کا چرچا کرایا جارہا ہے اسے ریلیز کرنے والے بھی اتنے ہی مجرم ہوں گے جتنا جرم ویڈیو بنانے والے نے کیا۔ دوسری بات یہ عرض کردوں کہ تاریخ کے خصوصاً مسلم تاریخ کے اوراق پر ماضی اور شخصیات کے حوالے سے جو درج ہے وہی نسل در نسل آگے بڑھ رہا ہے۔
مثال کے طورپر تاریخ کی کتب میں درج ایک واقعہ کا ذکر مرحوم جنید جمشید نے کیا تھا تو انہیں شور شرابے کے باوجود رجوع اورتوبہ کرنے کا موقع دیا گیا۔ گو اس رجوع اور توبہ کا موقع دینے والے وہی تھے جو عام طور پر سر تن سے جدا سے کم بات نہیں کرتے۔ اس لئے ’’اگر‘‘ خدانخواستہ عمران خان نے بھی تاریخ کے کسی واقعہ کا حوالہ دیا ہے تو اس کے خلاف غلیظ مہم کا دروازہ کھولنے کی بجائے اسے بھی جنید جمشید کی طرح رجوع اور توبہ کا موقع دیا جانا چاہیے۔
یہ بجا ہے کہ عمران خان گفتگو میں احتیاط نہیں کرتے بے احتیاطی سے کی گئی ان کی گفتگو کے بعض حصوں کو لے کر جب وقار ستی نے معاملہ اٹھایا تھا تو بھی ان سطور میں عرض کیا تھا معاملے کو نظرانداز کرنا زیادہ مناسب تھا۔ بدقسمتی سے اس معاملے پر عمران کی حکومت کے وقار ستی کے خلاف مقدمہ درج کروادیا۔
ان سطور میں عرض کیا تھا کہ مقدمہ درج کروانے والوں نے اگر پیروی کی تو مقدمہ گلے پڑجائے گا کیونکہ عمران خان نے جو کہا وہی وقار ستی نے آگے بڑھادیا۔ میری اب بھی یہی رائے ہے کہ وقار ستی کو مختلف وقتوں میں کہی گئی باتیں جمع کرکے ایک ویڈیو یا تحریر بناکر آگے نہیں بڑھانی چاہئیے تھی۔ مذہبی شدت پسندی کا نشانہ کسی کو بھی بنایا جائے یہ غلط ہوگا۔
عمران خان احتیاط کیوں نہیں کرتے؟ غالباً اپنے ادھورے مطالعے کی وجہ سے وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کس بات کا کیا مطلب نکل سکتا ہے اور لوگ اس کی کہی بات کو آگے کس انداز میں بڑھاسکتے ہیں۔ مذہبی تاریخ کے حوالے سے ان کے ابتدائی دونوں اتالیق ہارون رشید اور پروفیسر رفیق اختر بھی کچے مطالعہ کے حامل اشحاص ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں صاحبان بھی بسا اوقات ایسی بات کرجاتے ہیں جو تاریخ میں ایک محدود طبقے کی رائے کے طور پر تو موجود ہوتی ہے مگر اس پر اجماع نہیں ہوتا ۔
مکرر عرض کردیتا ہوں۔ مسلم تاریخ تضادات سے عبارت ہے۔ مسلمانوں کے درمیان عقائد کی بنیاد پر موجود تقسیم کا پس منظر کسی کو معلوم نہیں اس لئے پسندوناپسند تھی اور ہے۔تاریخ کے اوراق پر جو لکھا ہے وہ تاریخ ہے اسے سوفیصد درست مان لینا یا مسترد کردینا ایمان ہے نہ کفر۔
یہ ضروری ہے کہ اگر کسی ایک شخص کے حوالے سے تحریرکردہ باتوں یا تاریخ کے مخصوص حصے پر گفتگو کرنی ہی ہے تو پہلے تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے۔ پھر بات اس کے سامنے کی جائے جو تقابلی مطالعہ رکھتا ہو۔ خطبہ ہائے جمعہ کی تقاریر کو کُلِ ایمان سمجھ کر جینے والا شخص بہت خطرناک ہوتا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان ہوں یا کوئی بھی شخص، جس نے مسلم تاریخ پر گفتگو کا شوق پورا کرناہو پہلے وہ کسی ایک واقعہ بارے موجود مختلف آرا ضرور جان لے۔ اب یہ تو ممکن نہیں رہا کہ مسلم تاریخ کا ازسرنو جائزہ لے کر پھر سے تدوین ہو۔ وجہ ہے کہ بدقسمتی سے برصغیر میں تو مسلم تاریخ بھی ایمان کے تیسرے رکن کے طورپر پختہ ہوچکی۔ حالانکہ تاریخ اور مذہب دو مختلف چیزیں ہیں۔ مذہب کی تاریخ ہوتی ہے تاریخ کا مٓذہب نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں تو تاریخ کے عقیدے بھی موجود ہیں اور ان عقیدوں کو اس مسلم تاریخ سے سیراب کرنے کا سامان بھی مل جاتا ہے۔
تمہید طویل ہوگئی۔ عمران خان سے بے شمار سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں وہ اپنی کہی بات سے پلٹ جاتے ہیں۔ یوٹرن کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ مذہب سے بھی ان کا تعلق اتنا ہی ہے جتنا خطبہ ہائے جمعہ کو ایمانِ کُل سمجھنے والے کسی دوسرے شخص کا۔ وہ اپنی گفتگو میں جو اسلامی ٹچ دیتے ہیں اس کی ضرورت نہیں لیکن لگتا ہے کہ ان کے استادوں نے ان کے ذہن میں بٹھادیا ہے کہ یہاں مذہبی ٹچ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں سو وہ بھی ایک دکاندار کی طرح وہی سودا بیچنا چاہتے ہیں جو ’’ہارٹ کیک‘‘ ہے۔
یہ غیرمناسب ہوگا کہ ان کے کسی جملے یا کسی واقعہ پر تبصرے کو توہین کا رنگ دے کر طوفان بدتمیزی اٹھایا جائے لیکن خود انہیں بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ کم از کم اتنی تو احتیاط کیا کریں جتنی وہ اپنی دوسری سابق اہلیہ ریحام خان کے بارے میں پوچھے گئے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کرتے ہیں۔
اس احتیاط کے پس منظر پر بحث کی ضرورت نہیں اصل خوبی احتیاط ہے۔ سابق شوہر یا سابق اہلیہ کے لئے گفتگو کرتے ہوئے مردوزن میں سے جو بھی احتیاط کا دامن چھوڑدیتا ہے وہ جانور سے بھی بدتر ہے۔
ہم بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے پھر سے یہ عرض کریں گے کہ ان کے نانا احمد حسن خان یا خالو جنرل برکی جو بھی تھے ان کا معاملہ مسلم متھ کے مطابق اب خدا کے ساتھ ہے۔ ان دو مرحومین کی کسی بھی فہم کے عمران خان ذمہ دار تھے نہ ہیں ۔اسی طرح عمران خان بارے مولانا فضل الرحمن کی غیرمحتاط گفتگو ہو یا عمران کا ان کے بارے میں سوقیانہ پن کا مظاہرہ دونوں سماجی اقدار اور اخلاقیات کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔
مولانا ، عمران کو یہودی ایجنٹ کہتے ہیں یہ ملائیت کا آزمودہ نسخہ ہے۔ یہودوہنود کی سازش، یہودوہنود کا ایجنٹ، اسلام خطرے میں ہے یہ سب اصل میں ایک دھندہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دھندے بازوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
میں آپ کو چند سال پیچھے لے جانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس وقت (ن) لیگ اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے خلاف مذہبی انتہا پسندی کے کارڈ کھیل رہے تھے ۔ اس ملک میں ایک بڑے طبقے نے اس صورتحال کو غیرسنجیدہ اور بازاری پن قرار دیا۔ تب میں نے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ عمران خان میاں نوازشریف کو راج پال بناکر پیش کرنے اور (ن) لیگ بھی عمران کو کسی قادری کے ہاتھوں ’’زیر‘‘ کروانے کی جغادری نہ کرے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے بھی مجھ طالب علم کی رائے یہی ہے کہ عمران خان یا کسی شخص کے خلاف مذہبی انتہا پسندی کارڈ کھیلنا غلط ہوگا۔ خان اپنی تقاریر میں اسلامی ٹچ دینے کے لئے بسا اوقات ایسے جملے کہہ جاتا ہے جو غیرمناسب ہوتے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ جملے استعمال نہ کئے جائیں یقیناً درست مشورہ ہوگا۔
غلط یہ ہوگاکہ ان کا کوئی ایک جملہ پکڑ کر توہین ہوگئی کا شور مچادیا جائے۔ کسی دن توہین توہین کھیلنے والوں سے پوچھ کر تو دیکھیں کہ توہین کہتے کس کو ہیں؟
یقین جانئے وہ اس کا مطلب بتانے کی بجائے آپ پر بھی توہین کی ہمنوائی کا الزام دھردیں گے۔ اس ملک میں بہت آسان ہوگیا ہے مذہبی تقدس کو ہتھیار بناکر کسی کی جان لینا۔ میاں محمد بخشؒ جیسے صوفی بزرگ درست کہتے تھے کہ ’’خاصوں کی باتیں عاموں کے سامنے نہیں کرنا چاہئیں‘‘۔
یعنی مطالعے کو ہضم نہ کرسکنے والے تھڑدلے کے سامنے وہ بات ہی نہ کی جائے جس سے اسے ’’اپھارہ‘‘ ہوسکتا ہو۔ عمران خان کیسے سیاست میں لائے گئے کیسے ان کے لئے میدان ہموار کیا گیا، میڈیا مینجمنٹ کس نے کروائی۔
ففتھ جنریشن وار کا لشکر انہیں کس نے دیا۔ الیکشن سے قبل لوگوں کو ان کی جماعت میں جانے کے لئے دھمکایا کس نے، الیکشن مینجمنٹ کس نے کی۔ ان کی اے ٹی ایم مشینوں کا کردار کیا رہا۔ عمران سے سیاسی غلطیاں کیا سرزد ہوئیں۔ ان کی حکومت ناکام کیوں رہی یہ اور اس کے علاوہ بیسیوں موضوعات موجود ہیں ان کے حوالے سے انہیں آڑے ہاتھوں لیا جاسکتا ہے۔
ان کی ذات اور سیاست کے کج لوگوں کے سامنے رکھے جاسکتے ہیں۔ وہ ایک تخلیق کردہ بت ہی ہیں اور بت تو بُت ہی ہوتا ہے چاہے اسے کسی بھی طرح کا دیوتا بنادیجئے ۔
مگر ان پر توہین مذہب کا الزام لگانا یا یہ کہنا کہ ایک ویڈیو آرہی ہے جس کے بعد کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے، غلط ہوگا۔ کسی بھی شخص کے خلاف مذہبی انتہا پسندی کا ہتھیار استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اس کسی بھی شخص کا نام چاہئے عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔،
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر