نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگا آٹا اور یہ سناٹا||مظہراقبال کھوکھر

مظہر اقبال کھوکھر سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے قلمکار ہیں، وہ ڈیلی سویل کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں،

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صدر ایوب کا زمانہ تھا۔ کہتے ہیں اس دور میں آٹے کی قیمت میں دو روپے من اضافہ ہوا۔ اس سے قبل آٹھ سال تک آٹا کی قیمت اٹھارہ روپے من رہی۔ جیسے ہی آٹا بیس روپے من ہوا تو لوگوں میں بے چینی پھیل گئی۔ مگر عوامی سطح پر اس کا اظہار نہیں کیا جا رہا تھا۔ تو ایسی صورتحال میں انقلابی شاعر حبیب جالب نے ایک طنزیہ نظم ”صدر ایوب زندہ باد“ لکھی۔ جسے وہ عوامی جلسوں میں پڑھ کر لوگوں میں جوش پیدا کرتے تھے۔

بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
بیس گھر ہیں آباد
کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
ملک دشمن کہلاتے ہیں
جب ہم کریں فریاد
صدر ایوب زندہ باد

اس نظم نے ایسی ہلچل مچائی کہ عوام کا سناٹا ٹوٹ گیا اور لوگ صدر ایوب کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت اپوزیشن نے بحالی جمہوریت کی جو مہم چلائی۔ اس میں بھی بنیادی اہمیت مہنگائی کو دی گئی۔ جس کی وجہ سے تحریک میں جان پڑ گئی اور صدر ایوب کو گھر جانا پڑا۔

مگر آج جب آٹے کی قیمتوں کی تباہ کن صورتحال دیکھتا ہوں تو حیران ہی نہیں پریشان ہوجاتا ہوں۔ کہاں دو روپے من اضافہ ہونے پر لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور کہاں 70 روپے کلو والا آٹا 170 روپے مل رہا ہے۔ مگر سناٹا ایسا ہے کہ کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ کوئی بتانے والا۔ یعنی آٹا مل رہا ہے نہیں مل رہا، مہنگا ہے سستا ہے، آٹا کہاں سے ملے گا کیسے ملے گا پیسے دے کر بھی ملے گا یا نہیں سب کچھ دیکھ کر سب کچھ سہ کر بھی عوام احتجاج نہیں کر رہے اور حکمران احساس نہیں کر رہے۔ اور جب لوگ خود اپنا احساس نہیں کریں گے تو کوئی اور ان کا احساس کیسے کریں گے اور کیوں کریں گے۔

ادارہ شماریات کی اس ہفتے کی رپورٹ کے مطابق آٹے کی قیمتوں میں پاکستان کی تاریخ کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ پہلی بار 20 کلو آٹے کا تھیلا 3000 روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے مختلف شہروں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمتوں کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ جن میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں جہاں آٹا مقررہ نرخ پر مل رہا ہو۔ بات صرف آٹا مہنگا ہونے تک محدود نہیں بلکہ یہ مہنگا آٹا ملنا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔ کبھی صبح 9 بجے سے 11 بجے کے دوران شہر کا چکر لگایا جائے۔ تو مختلف کریانہ سٹور پر لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ کیونکہ سکیم والا آٹا انہی اوقات میں دستیاب ہوتا ہے۔

جیسے ہی آٹا دکانوں پر اترتا ہے۔ تو انتظار میں بیٹھے لوگوں کا جم غفیر امڈ آتا ہے۔ کیونکہ سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ جو اس وقت آٹا خریدنے سے رہ جائے اسے یا تو دکان دکان کے دھکے کھانے پڑتے ہیں یا پھر دوسرے دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور اب تو سرکار نے پالیسی تبدیل کر دی ہے۔ پہلے مختلف کریانہ سٹورز سے آٹا مل جاتا تھا۔ اب ہر شہر میں مختلف ٹرکنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔ لیہ سٹی کے لیے چار ٹرکنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے۔

یہ صرف ایک شہر کی کہانی نہیں بلکہ شہر شہر کی کہانی ہے۔ بلکہ اس ملک کی کہانی ہے۔ جو کہ ایک زرعی ملک ہے۔ جس کی 70 سے 80 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ جس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ زراعت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جو ملک دنیا میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ اس کے غریب اور سفید پوش عوام چند کلو آٹے کے لیے گھنٹوں قطاروں میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ صرف ذلیل ہی نہیں ہو رہے بلکہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق گزشتہ روز سندھ کے شہر میر پور خاص میں مالھی کالونی کا 40 سالہ شخص ضلعی حکومت کی طرف سے مالھی گلستان بلدیہ میں قائم سستا آٹا کے سٹال پر آٹا خریدنے گیا۔ مگر رش بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی دھکم پیل کے نتیجے میں دم گھٹنے سے جان کی بازی ہار گیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ زندہ رہنے کے لیے وہ آٹا خریدنے گیا مگر آٹے کے حصول کی کوشش میں موت کے منہ میں چلا گیا۔ ایک لمحے کو سوچئے زندہ رہنا کتنا مشکل اور موت کتنی آسان ہو گئی ہے۔ جو لوگ پورا دن دیہاڑی کر کے آٹھ سو روپے کماتے ہیں۔ ان کے لیے آٹا خریدنا کتنا مشکل ہے۔ کیونکہ اگر وہ دیہاڑی پر جاتے ہیں تو آٹا لینے نہیں جا سکتے اور اگر آٹا لینے جاتے ہیں تو دیہاڑی پر نہیں جا سکتے۔ مگر دیہاڑی کے بغیر آٹا خریدنا ناممکن ہے کتنی اذیت ناک صورتحال ہے۔

بات صرف آٹے تک محدود نہیں ضروریات زندگی کی ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ گھی، چینی، دالیں، چاول کچھ بھی خریدنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ غریب کی واحد عیاشی برائلر مرغی بھی ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ مگر حیران کن پہلو یہ ہے کہ آٹے سے لے کر مرغی تک اور چینی سے لے کر گھی تک کچھ بھی عوام کی پہنچ میں نہیں مگر عوام یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔ نہ کوئی احتجاج ہے نہ کوئی آہ و بکا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کے حصول کی کوشش نے عوام کی ایسی کمر توڑی ہے کہ اب ان میں سکت ہی نہیں کہ کوئی احتجاج کر سکیں سڑکوں پر آ سکیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی قیادت ہی موجود نہیں جو عوام کے دکھ کو سمجھ سکے عوام کے بنیادی مسئلے کو سمجھ سکے۔ کیونکہ اس وقت ملک کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی طرح اقتدار میں ہیں۔ اور ملک آج جس تباہ کن صورتحال سے دو چار ہے اس کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں ہیں اور بد قسمتی تمام جماعتیں اقتدار میں ہیں تو پھر کون سی جماعت احتجاج کرے گی اور وہ بھی عوام کی خاطر کون یہ گھاٹے کا سودا کر سکتا ہے کون اپنے خلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

مگر سندھ، پنجاب، کے پی اور بلوچستان سے لے کر مرکز تک اقتدار میں شامل تمام جماعتوں اور حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے آٹے کے لیے لمبی لمبی قطاروں کو ختم کر کے وافر مقدار میں آٹا فراہم نہ کیا گیا تو لوگوں کے اس جم غفیر کا رخ آٹے کے سٹالوں کے بجائے تمہارے دروازوں کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ اور اگر عوام کا سناٹا ٹوٹ گیا تو تمہارا اقتدار بھی ٹوٹنے سے نہیں بچ پائے گا۔

 

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

About The Author