محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رواں سال کا آج آخری دن ہے ۔ سال کے ابتدا میں عہد کیا تھا کہ اس سال سوشل میڈیا سے تھوڑا وقت کم کر کے کتابوں کو دینا ہے اور ہر ہفتے ایک کتاب یامہینے میں کم از کم دو کتابیں ضرور پڑھنی ہیں۔ پہلے چھ ماہ میں زیادہ عمل نہیں ہوا،آخری تین چار ماہ میں البتہ کسر نکالنے کی کوشش کی اور زیادہ برا سکور نہیں رہا۔ فکشن میں چند اچھی کتابیں پڑھنے کو ملیں، اس لئے پہلے ان کا تذکرہ ۔ سال کے آخر میں مشہور اطالوی فکشن نگار ماریو پوزو کے شہرہ آفاق ناول ’’گاڈ فادر‘‘کا اردو ترجمہ شائع ہوا، اسے معروف صحافی ، اینکر رئوف کلاسرہ نے اردو کے قالب میں ڈھالااور بک کارنر نے چھاپا۔ ’’گاڈ فادر ‘‘میری آل ٹائم فیورٹ کتابوں میں شامل ہے، اسے انگریزی میں کئی بار پڑھ چکا ہوں۔ ایک آدھ اردو ترجمہ بھی پڑھا تھا، مگر کلاسرہ کا ترجمہ پہلی بار پڑھا۔ بڑا لطف آیا کیونکہ صرف انہوں نے مکمل ناول ترجمہ کرنے کا کشٹ اٹھایا۔ ورنہ پہلے اس ناول کے ستر اسی فیصد حصے کو مکمل کہہ کر چھاپ دیا جاتا تھا۔دو راتیں جاگ کر، مزے لے کر ناول پڑھا۔ترجمہ پڑھتے پڑھتے اس کے انگریزی متن کو بھی پڑھنا شروع کر دیتا۔ کبھی یہ دیکھنے کے لئے کہ اصل ایکسپریشن کیسا تھا اورکبھی یہ چیک کرنے کے لئے کہ ترجمہ کیسا ہوا؟ابھی تک سرشاری کی کیفیت میں ہوں۔ماریو پوزو کے دومزید ناول اور ایک نان فکشن کتاب بھی ڈائون لوڈ کر لی ہے جو کارلیون فیملی سے جڑے ہیں۔ حفیظ خان سابق جج اور معروف ادیب ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں، کئی ایوارڈز بھی حاصل کر چکے۔ حفیظ خان کے دو تین ناول چھپ چکے ہیں، مگر میں نے کچھ عرصہ قبل ہی ان کا ناول ’’حیدر گوٹھ کا بخشن‘‘ پڑھا۔ بخشن ایک روایتی سرائیکی نام ہے،حیدر گوٹھ کا بخشن مگر کوئی روایتی کردار نہیں۔ حفیظ خان نے کمال کا تھرلنگ ناول لکھا ہے۔ شروع کرنے کے بعد آپ کہیں رک نہیں سکتے۔ اچھی خاصی ضخامت کا ناول ہے، مگر ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا۔ بہت دلچسپ ہے۔ حفیظ خان کی کردار نگاری کمال کی ہے، ان کے فقرے بھی خوبصورت اور بامعنی ہیں، یوں لگتا ہے جیسے فلم کے لئے مکالمے لکھے ہوں۔ موثر، ذہن میں اترنے ، یاد رکھے جانے والے۔اس ناول پر کوئی اچھا ویب سیزن بن سکتا ہے۔ حفیظ خان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہے ہیں، وکلا سیاست اور وکلاگردی پر بھی ان کی گہری نظر ہے، اس ناول میں یہ چیزیں کمال عمدگی سے بیان ہوئی ہیں۔ اس سال ایک بڑا ناول ’’نیلی بار‘‘ بھی پڑھا، طاہر ہ اقبال اس کی تخلیق کار ہیں۔ فیصل آباد سے ان کا تعلق ہے ، اپنے اس ناول میں انہوں نے ماجھے کی سرزمین، اس کی پوری دنیا کو گویا زندہ کر دیا ہے۔ ہمارے تارڑ صاحب طاہر ہ اقبال کے قلم اور ان کے اس ناول کے بڑے مداح ہیں، بہت کھل کر اس کی تعریف لکھتے ہیں۔ ناول پڑھا تو یہ تعریف حق بجانب لگی۔ طاہر ہ اقبال البتہ قدرے انڈرریٹیڈ ناول نگار لگیں، جتنااعلیٰ ان کا کام ہے، انہیں اتنی پزیرائی اورشہرت ابھی نہیں مل سکی۔ نقادوں اوراخبارات کے ادبی ایڈیشنز والوں کوان کے کام کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ’’نیلی بار‘‘ البتہ ہر بڑے ناول کی طرح یکسوئی اور توجہ کا طالب ہے۔ یہ ناول چلتے پھرتے ، بس ، ٹرین میں بیٹھے پڑھنے والا نہیں ۔اس کی زبان شاندار ہے اگر اسی دنیا میں ڈوب کر دیکھیں، ورنہ ابتدا میں کچھ ناہمواری لگے گی۔ دراصل طاہرہ اقبال نے کوشش کی ہے کہ اس زمانے ، ماحول ، ریت رواج، انہی محاوروں، مکالموں کو زندہ کیا جائے۔ کوشش کامیاب رہی۔ ناول موسٹ ریکمنڈڈہے۔ ماحول کی بات ہو رہی ہے تو ہڑپہ کی پانچ چھ ہزار سال پرانی تہذیب اور دنیا کواردو ادب کی استاد، محقق ڈاکٹر حنا جمشید نے اپنے ناول ’’ہری یوپیا‘‘میں بھی زندہ کر دیا ہے۔ یہ دلچسپ تجربہ ہے۔ فکشن کی یہ قوت ہے کہ بھولے بسرے زمانے پھر سے لوٹا دیتی ہے۔ ’’ہری یوپیا ‘‘پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کئی ہزار سال قبل مسیح کی قدیم مقامی تہذیب کیا تھی؟ کیسے پرامن ، بھولے بھالے لوگ تھے جو محبتوں پر یقین رکھتے اور مہمانوں کے لئے باہیں کھلی رکھتے ۔پھر کیسے یہ سب خراب ہوا، زمانے کے بدلتے رواج، طاقت پر یقین رکھنے والے کچھ لوگوں نے سب الٹا دیا، کچھ آسمان بھی نامہربان تھا۔ ناول میں ڈرامائیت یا تھرل زیادہ نہیں۔ سلوپیس کلاسیک مووی کی طرح ،دھیمے سروں میں بہتے راگ جیسا۔’’نیلی بار‘‘ اور ’’ہری یوپیا‘‘ دونوں ناول بک کارنر نے شائع کئے۔ طاہرہ اقبال کے نام سے ملتے جلتے نام مگر مختلف اسلوب کی حامل نیلوفراقبال کاافسانوی مجموعہ’’ گھنٹی ‘‘بھی پڑھا۔ اسے سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ نیلوفر اقبال کا ایک افسانہ’’ آنٹی ‘‘لگ بھگ پچیس سال قبل سب رنگ نے شائع کیا۔ کیا تیکھا ، کاٹ دار افسانہ تھا۔ اسے کبھی بھلا ہی نہیں سکا۔ ڈھونڈتا رہا کہ مصنفہ کی دیگر کہانیاں بھی پڑھنے کو ملیں۔ ایک اور خوبصورت افسانہ گھنٹی بھی سب رنگ نے چھاپا تھا۔ گھنٹی کے نام سے چھپنے والے مجموعہ میں کئی بہت عمدہ افسانے موجود ہیں۔ سنگ میل کی اچھی کتابوں میں ایک بہت خوبصورت اضافہ مستنصر حسین تارڑ کے نئے پنجابی ناول ’’میں بھناں دلی دے کِنگرے‘‘کا ہے۔ یہ بھگت سنگھ پر لکھا گیا ہے۔ پنجابی میں گھنٹوں بول اور سن سکتا ہوں، مگر پنجابی ریڈنگ سپیڈ بہت کمزور ہے۔ ناول شروع کیا ہے، اچھا لگا ۔ پنجابی پڑھنے والے اس کی بہت مدح کر رہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ یہ عالمی سطح پر پنجابی زبان کے ایوارڈز جیت سکتا ہے۔ سال کے آخر میں اقبال دیوان کی دو کتابیں ’’چارہ گر ہیں بے اثر‘‘اور ’’میر ملازم ہے، معلوم تھا‘‘شائع ہوئیں۔ انہیں افسانوی مجموعوں کا نام دیا گیا، مگر مجھے تو یہ ناولٹ لگے یا طویل مختصر افسانہ کہہ لیں۔ اقبال دیوان ادب میں زیادہ پرانی انٹری نہیں، وہ بیورو کریٹ رہے ہیں، کراچی کے ایک میمن گھرانے سے ان کا تعلق ہے، زیادہ سروس بھی کراچی میں کی۔ پچھلے تین چار برسوں میں لکھنا شروع کیا اور سچی بات ہے کہ تہلکہ خیز کام کر ڈالا ہے۔ ان کے اب تک تین ناول ’’جسے رات لے اڑی ہوا‘‘، ’’وہ ورق تھا دل کی کتاب کا‘‘اور ’’کہروڑ پکا کی نیلماں‘‘شائع ہوچکے ہیں جبکہ اوپر بیان کئے گئے دو تازہ افسانوی مجموعوں سے پہلے ایک اور مجموعہ ’’پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ اقبال دیوان جو اپنے قریبی حلقے میں آئی ڈی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، ایک خلّاق تخلیق کار اور بلا خیز فکشن نگار ہیں۔ ان کی جادوئی زبنیل میں بہت کچھ موجود ہے، وہ نجانے کہاں کہاں سے یہ ترشے ہوئے کردار لاتے ہیں، فکشن مگر کچھ یوں کہ حقیقت کا گمان ہو۔ دیوان صاحب کی تحریروں میں نسائی کردار بہت طاقتور اور زور آور ہیں۔ان کی ایک کتاب کے پیش لفظ میں عبدالباسط خٹک نے کیا خوب لکھا:’’دکھ اور سکھ کے تڑپتے آنسو، آسودگی اور ناآسودگی کے دلگداز گیت، گلیوں کے برملا قصے، غلام گردشوں کی گونگی کہانیاں، جسم اور لمس کے مدھر ذائقے ، روح اور روحانیت کے باطنی رمز ، فنوں لطیفہ کی ہمہ جہت حکایات، منظر نگاری کے شیش محل اور کردارنویسی کے بولتے مجسمے اقبال دیوان کے بائیں ہاتھ کے کھیل ہیں۔ ‘‘دیوان صاحب کا سب مال’’ بک کارنر‘‘ پر دستیاب ہے۔ جارج اورویل مشہور ادیب گزرے ہیں، ان کی کئی کتابیں مشہور ہوئیں،مگر اینمل فارم کو تو گویا اساطیری شہرت ملی۔ درجنوں زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے، کئی ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔اس ناول کے دو تین تراجم چھپے ہیں، ایک ترجمہ برسوں پہلے ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا تھا۔ اب وہ پھر سے شائع ہوا ہے۔ محنتی صحافی ،فکشن نگار اور مترجم سید کاشف رضا نے اسے ایڈٹ کیا ہے، اس میں مفید اضافے بھی کئے۔ کم ضخامت کا کمال ناول ہے، اگر نہیں پڑھا تو آپ ایک منفرد ذائقے سے محروم ہیں۔ ’’ ٹرین ٹو لاہور ‘‘ خوشونت سنگھ کا مشہور ناول ہے،کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ میرے سسر مرحوم افضل مسعود ایڈووکیٹ (آف احمد پورشرقیہ)نے اس کا سرائیکی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔اس کے ایک دو اردو تراجم ہوئے ہیں،مگر یہ ناول اب معروف مترجم یاسر جواد نے ترجمہ کیا ہے۔ یاسر جواد کہنہ مشق مترجم ہیں، ڈیڈھ دو سو کتابیں ترجمہ کر چکے۔ خوشونت سنگھ کا ایک اور چٹخارے دار ناول دلی ہے، یاسرجواد ہی نے ترجمہ کیا ۔دلی ناول کے چند ٹکڑے کچھ بولڈ ہیں، مگر مجموعی طور پر یہ سنجیدہ ناول ہے۔ اسے بھی نمٹا دینا چاہیے ۔ شیخ فرید الدین عطار کی مشہور حکایات کی کتاب’’ منطق الطیر‘‘ کو نئے ڈھنگ سے بڑے حسین انداز میں چھاپا گیاہے۔تارڑ صاحب اس کتاب کے دیرینہ مداح ہیں، وہ پچھلے سال اپنا ایک ناول’’منطق الطیر جدید‘‘ بھی لکھ چکے ۔شیخ عطار کی’’ منطق الطیر‘‘مسٹ ریڈ بکس میں آتی ہے۔ نہیں پڑھا توپریشان ہونا چاہیے۔ فکشن کے حوالے سے ایک قابل ذکر کام سب رنگ کہانیوں کی چھٹی جلد کا آنا ہے۔ سب رنگ غیر معمولی معیار رکھنے والا جریدہ یا ڈائجسٹ تھا، اس میں جو طبع زاد یا ترجمہ شدہ کہانیاں چھپیں، وہ کمال تھیں۔سب رنگ کے عاشق صادق حسن رضا گوندل (مقیم برمنگم،انگلینڈ)نے سب رنگ کی ان کہانیوں کو کتابی شکل میں لانے کا خواب دیکھاتھا۔ اس کی چھٹی جلد چھپ چکی ہے۔ ہر بار شکیل عادل زادہ ایک خصوصی مضمون لکھتے ہیں، وہ سب رنگ ڈائجسٹ کی کتھا بیان کر رہے ہیں۔ شکیل بھائی کی نثر توشہ خاص ہے۔ نان فکشن کتابوں کا تذکرہ رہ گیا، اگلی نشست میں ان شااللہ۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر