حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نامکمل زندگی‘‘ ہمارے چار اَور جیتی بستی ایک ذاتِ واحد کی کہانی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ اس معذور معاشرے کی داستان ہے جو اپنے حقیقی اصل سے کٹا سرپٹ دوڑے جارہا ہے۔ اس معاشرے کی اکثریت خود کو جس دین کا پیروکار کہتی ہے اس کی ایسی ایسی خوبیاں بیان کرتی ہے جنہیں سن پڑھ کر ہم اور آپ عش عش کر اٹھتے ہیں لیکن جب چار اَور نگاہیں دوڑاکر ان خوبیوں، انقلابی قوانین اور انسانیت کے درد سے بھرے ارشادات کی عملی تصویر یا تصویریں تلاش کرتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے۔
قول و فعل میں تضاد بھی ایک عذاب ہی ہے چلیں یا یوں کہہ لیجئے جس تاریخ، دین اور ان سے بندھے معاملات پر ہم سبھی پھولے نہیں سماتے اس پرعمل سے گریزاں کیوں ہے۔
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ان لوگوں کو ضرور تلاش کرنا چاہیے جن کا موقف ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اور جوکچھ اسلام نے انسانیت کو دیا کوئی دوسرا دین و دھرم اور عقیدہ یا نظریہ نہیں د ے سکا۔
گو اپنی ذات کی حد تک میں اس موقف کا حامی کبھی نہیں رہا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بنیادی اصولوں، قوانین اور سماج سدھاری کے پیغام پر عمل ہی نہ ہو اور فقط ’’پدرم سلطان بود ‘‘ والی صورتحال دیکھنے کو ملے تو نہ صرف تقابل کی جستیوں جنم لیتی ہے بلکہ بسا اوقات جو جواب ملتا ہے وہ اکثریت کی سوچ سے مختلف ہوتا ہے۔
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی وجہ سے مطالعے اور مشاہدے نے یہ سمجھایا کہ تطہیر ذات کی دعوت سے اگر مملکت سازی اور نظام اسارنے کا کام لیا جائے تو نتیجہ
’’ڈھاک کے تین پات‘‘کی صورت برآمد ہوگا ۔
سادہ لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘۔
ایک انسانی سماج اور اس کے تشکیل کردہ نظام کی اصل ذمہ داری کیا ہے۔ محض مغالطوں سے بھی اپنی تاریخ پر سینہ چوڑا کئے دعوے کرتے رہنا؟
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ ہماری تاریخ کیا ہے۔ تاریخ کی بُنت کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان سے تو ہم انکاری ہیں اور جس تاریخ کو سینے سے لگائے بلکہ یوں کہہ لیجئے اس پر فخر کرتے نہیں تھکتے وہ عربوں کی تاریخ ہے کچھ ترمیم کے ساتھ یہ کہہ لیجئے کہ اس سرزمین پر جو بٹوارے سے قبل متحدہ ہندوستان کہلاتی تھی پر حملہ آور لشکروں اور حکمرانوں کی تاریخ ہے۔
اس میں ’’ہم‘‘ کہاں ہیں ہم ہیں ویسے اس تاریخ میں لیکن تاریخ ساز اور شراکت دار کے طور پر نہیں بلکہ مفتوحین کی صورت۔ غلط العام یہ ہے کہ یہ ہم ہیں۔
اس غلط العامی کے مرض نے حقیقت پسندی سے منہ موڑنے کی بیماری مسلط کردی۔ اب اصل میں تو ہمارے اہل دانش کو اس ملک کے لوگوں کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ نظام مملکت اور چیز ہے اور تجارتی جذبہ سے ہوتی عبادات بالکل مختلف چیز۔
کیا اہل دانش یہ ذمہ داری ادا کرپائیں گے؟ نصف صدی سے کچھ اوپر یہ سوال منہ چڑارہا ہے۔
معاف کیجئے گا تمہید طویل ہوگئی لیکن یہ غیرضروری ہرگز نہیں۔ پچھلی شب اور آج دن کا کچھ حصہ فیصل آباد میں مقیم ایک عزیزہ حنا سرور کی تصنیف ’’نامکمل زندگی‘‘ پڑھتے ہوئے گزارا۔ کتاب، ’’زندگی کے ادھورے پن کا شکوہ ہے یا معذور سماج‘‘ کو دیکھایا گیا آئینہ؟ ہماری دانست میں تو زناٹے دار تھپڑ ہے۔ اگر محسوس ہو تو۔
حنا سرور پیدائشی معذور ہیں۔ اب تک کے سفر حیات میں انہوں نے کھلی آنکھوں سے جو دیکھا، ذہنی طور پر جو برداشت کیا، دیکھے اور برداشت کئے کا جس طور مقابلہ کیا اس میں انہوں نے اپنے مطالعے کو شامل کرکے یہ کتاب لکھی ہے۔
فکری اور عملی طور پر معذور سماج میں بسنے والی اس عزیزہ نے سماج کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ کوئی بھی لکھنے والا حرفوں کی بُنت سے تحریر یا کتاب لکھ کر سماج واسیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں بیٹی کے جنم پر رونا دھونا شروع ہوجاتا ہو، منہ پھاڑ کے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہو کہ لوجی زندگی کے بوجھ میں اضافہ ہوا اس معاشرے کے کسی گھر میں معذور بچی یا بچے کی پیدائش پر کیا کیا باتیں نہیں ہوتی ہوں گی۔
اپنے چار اور آباد ان خاندانوں کا تصور ذہن میں لایئے جن میں سے کسی گھر میں ایک آدھ پیدائشی معذور موجود ہو۔ گھر کے غیرضروری اس فرد سے خاندان عزیزواقارب اور دیگر کے برتائو کو بھی ایک بار ذہن میں لایئے۔ پھر غور کیجئے کہ پیدائشی طور پر معذور کن عذابوں سے دوچار ہوتے ہوں گے۔
سننے اور بولنے سے محروم تو پھر اظہار نہیں کرپاتے مگر جو سن بول لیتے ہیں وہ اپنے پیاروں اور چار اَور کے لوگوں کے کلام و سلوک پر کیسے کڑھتے ہیں کیا سوچتے ہیں اور پھر اس کا اظہار کن لفظوں میں کرتے ہیں؟
اس سوال کا ایک جواب تو حنا سرور کی کتاب ’’نامکمل زندگی‘‘ کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ آپ اسے ’’حنا سرور بنام سماج و نظام‘‘ کے عنوان کا ایک مقدمہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔
اپنے دعویٰ کے حق میں انہوں نے مسلم تاریخ کے بعض ادوار کے کچھ احکامات اور چند بزرگ شخصیات کے ارشادات سے استفادہ کرکے جرات کے ساتھ اپنا بلکہ اپنے جیسوں کا مقدمہ پیش کیا۔ کتاب پڑھنے کے بعد سے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ مقدمہ سماجی تاجروں اور نظام کے خلاف ہے یا پورے سماج کے خلاف۔ کم از کم میرا جواب یہی ہے کہ یہ مقدمہ پورے سماج کے خلاف دائر کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم میں کوئی شخص بھی اس معاملے یا کسی اور معاملے میں انفرادی حقوق و ذمہ داریوں سے عہدہ برآد نہیں ہوتا۔
’’نامکمل زندگی‘‘ کی مصنفہ عزیزہ حنا سرور کا دکھ محسوس کرنے کے لئے میرے پاس ایک سے زائد وجوہات ہیں اولاً یہی کہ میری اپنی ایک ہمشیرہ پیدائشی معذور ہیں۔ نسبتی رشتہ داروں کے دو خاندانوں میں بھی ایک ایک فرد پیدائشی معذور ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اسی سماج کا فرد ہوں نصف صدی سے کچھ اوپر وقت سے قلم مزدوری کررہا ہوں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر لکھتا بولتا ہوں لیکن اپنے ہی معاشرے کے اس اہم مسئلہ پر کبھی توجہ نہیں دے سکا۔
حنا سرور درست کہتی ہیں کہ
” ایک موثر قانون سازی سے معذور افراد کے شہری و معاشی حقوق کا تحفظ اور ان کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے "۔ ہمیں اور کچھ نہیں کرنا بس ان کی آواز سے آواز ملانا ہے تاکہ بات آگے بڑھے۔
ایسی قانون سازی ہو جس سے معذور افراد کے حقوق کا تحفظ ہوسکے مگر اس سے پہلے ہمیں چار اَور جیتے بستے لوگوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی بالخصوص ان والدین اور خاندانوں کی جن کے ہاں پیدائشی معذور جنم لیتے ہیں اور وہ انہیں بوجھ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ بھی کہ انہیں تعلیم و تربیت دلوانے کا کیا فائدہ ۔
مجھے معاف کیجئے گا میں کسی بھی معذور کی پیدائش کو امر ربی نہیں سمجھتا بلکہ ایک طالب علم کی حیثیت سے ہمیشہ یہ کہتا لکھتا آرہا ہوں کہ منگنی سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں کا طبی معائنہ بہت ضروری ہے تاکہ یہ جانا جاسکے کہ دونوں میں سے کسی ایک میں کوئی ایسی بیماری تو نہیں جو اگلی نسل کو کسی شکل میں منتقل ہوسکتی ہو۔
ثانیاً نفسیاتی ماہر کے ساتھ بھی دونوں کی ایک ایک نشست ہونی چاہیے تاکہ یہ علم میں آئے کہ دونوں میں قرابت داری کتنی پائیدار رہے گی۔ تحمل و برداشت کی صورت کیا ہے، مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ کتنا۔
طبی معائنہ اور نفسیاتی نشست ظاہر ہے دونوں کام اسی صورت میں ہوں گے جب اس کے لئے موثر قانون ہو اور اس پر عمل بھی۔ بہرطور فی الوقت تو یہ ہے کہ ہمیں معذورین کے شہری و معاشی حقوق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے تاکہ ارباب اختیار کو احساس ہو کہ معاشرے کا ایک طبقہ نظرانداز ہورہا ہے۔
ہمیں معذور بچوں کے والدین سے بھی گزارش کرنا چاہیے کہ وہ اسے امر ربی سمجھ کر اب باقی زندگی کوسنے اور کڑھنے میں بسر نہ کریں بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوں۔
حنا سرور نے جس جرات کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا وہ جرات لائق تحسین ہے۔ 128 صفحات کی اس کتاب کے آخری صفحہ پر وہ لکھتی ہیں ’’زندگی خوبصورت اذیتوں کا نام ہے مگر آپ اسے خوبصورت بناسکتے ہیں اور پھر اس نامکمل زندگی کو مکمل کرسکتے ہیں‘‘
ظاہر ہے کہ یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے حصہ کا کردار ادا کرنے میں سستی اور بخل کا مظاہرہ نہ کرے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر