ستمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدراتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

بابر ستار نے کہا کہ ٹیکس قانون میں وضاحت طلب کرنے کا طریقہ کار موجود ہے،صدر کے پاس جانے سے پہلے اسٹیٹ بنک سے رپورٹ طلب کی جانی چاہیے تھی۔

اسلام آباد: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی ہے ۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل بابر ستار نے آج اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی خلاف ورزی بنیادی الزام ہے۔ کیس میں منی لانڈرنگ یا فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام نہیں۔

بابر ستار نے کہا کہ ٹیکس قانون میں وضاحت طلب کرنے کا طریقہ کار موجود ہے،صدر کے پاس جانے سے پہلے اسٹیٹ بنک سے رپورٹ طلب کی جانی چاہیے تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نےریمارکس دیے کہ کن قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئیں ریفرنس میں اس کا نہیں بتایا گیا؟ کوڈ آف کنڈکٹ صرف ججز کے تحفظ کیلئے نہیں اوروں کیلئے بھی ہے،الزام ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے آمدن کے ذرائع نہیں بتائے۔

دس رکنی لارجر بنچ کے سربراہ نے کہا کل آپ نے شہری حقوق پر بات کرتے ہوئے منیر اے ملک کے دلائل کی مکمل نفی کی۔

اس پر بابر ستار نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو اپنے دلائل کی ابھی وضاحت کر دیتا ہوں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا وضاحت آپ کبھی بھی دے سکتے ہیں۔

بابر ستار نے کہا کہ ممکن ہے ناتجربہ کاری کے باعث اپنی بات کی وضاحت نہ کر سکا،آرٹیکل 10 کے تحت کونسل شہری حقوق پر بات نہیں کر سکتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ صدر کے سامنے جسٹس قاضی فائز عیسی کے فارن اکاونٹس یا اسٹیٹ بنک کی ایسی کوئی رپورٹ نہیں تھی،قانون کے تحت تو ہر شہری کو حق ہے کہ رقم بیرون ملک بھیج سکے۔

بابر ستار نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 انکم ٹیکس افسران کو مشورہ دینے کا اختیار نہیں دیتا،11 مارچ 1999 کو جسٹس قاضی فائز عیسی ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہوئے۔

جسٹس قاضی کے وکیل نے کہا ایف بی آر کے اندرونی طریقہ کار کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کوئی اتھارٹی ٹیکس معلومات  نہیں دیکھ سکتی جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ پبلک سروس میں نہیں انکی معلومات شیئر نہیں کی جا سکتیں۔

جسٹس عمر نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ جب سارا مواد صدر کے پاس گیا تو ان کو مواد حاصل کرنے کے قانونی طریقہ کار کو دیکھنا چاہیے تھا؟ شاید  تکنیکی بنیادوں پر آپ درست کہہ رہے ہوں لیکن یہ نقاط بہت چھوٹے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی ٹیکس ریٹرن کہاں فائل کرتے تھے؟

بابر ستار نے کہا سپریم کورٹ کے جج بننے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی اسلام آباد میں ٹیکس ریٹرنز فائل کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 209 ججز کو نکالنے کے لیے نہیں بنایا گیا  بلکہ تحفظ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یقینی طور پر ججز کو قانون کے مطابق ہی عہدے سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔

بابر ستار نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت انکم ٹیکس آفسران کے مشورہ دینے کا اختیار نہیں دیتا11 مارچ 1999 کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ ایف بی آر کے اندرونی طریقہ کار کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کوئی اتهارٹی ٹیکس معلومات  نہیں دیکھ سکتی ۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا ایڈووکیٹ بابر ستار سے مکالمہ  بھی ہوا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا بابر ستار صاحب کمرہ عدالت میں لگی گھڑی بھی کچھ کہہ رہی ہے،آپ کے دلائل غور طلب ہیں،آپ کل ٹیکس قوانین سے متعلق اپنے دلائل مکمل کریں۔

بابر ستار نے کہا اگر مجھ سے سوالات کیے گئے تو کل تک دلائل مکمل کر لوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کل مقدمے کی سماعت بیس اوور والے میچ کی طرح کریں گے۔

کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ:صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست پر سماعت کا احوال

About The Author