ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابوں کے مطالعہ سے انسان کے ذہن و دماغ کی ورزش بھی ہوتی ہے، اور اس کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی ہوتا ہے، جب کہ موبائل اور سوشل ایپس وغیرہ کے ذریعے مطالعہ کرنے سے انسان کو بہت جلد تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے۔کتاب کا مطالعہ ہمارے الفاظ کا ذخیرہ بڑھاتا ہے۔قصہ مختصرسفر ہو یا حضر کتابیں ہم سفر اور ہم نشین رہنی چاہئیں۔ کتابیں ہمیں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتیں، اکتاہٹ کو ہمارے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتیں۔ویسے تو وسیب میں کئی کتب خانے موجود ہیں۔جو اسلامیہ یونیورسٹی، صادق پبلک سکول، ایس ای کالج اور قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سمیت کئی تعلیمی اداروں میں موجود ہیں مگر بہاولپور میں ایک ادارہ سنٹرل لائبریری بھی ہے ، جو کہ پورے ہندوستان میں اپنی مثال آپ تھی۔سنٹرل لائبریری بہاول پور کا شمار پاکستان کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا ہے اور یہ نواب سر محمد صادق مرحوم کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس سے ان کی ادب سے وابستگی اور دلچسپی کا عملی اظہار ہوتا ہے ۔ امور سے سلطنت کے علاوہ نواب مرحوم نے بہاول پور کے عوام کی تعلیمی پسماندگی کو بھی سامنے رکھا اور انہیں ادب سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اور ان کے ذوق کی تسکین کے لئے ایک عظیم الشان لائبریری قائم کر دی تاکہ آنے والی نسلیں اس عظیم سرمایہ سے مستفید ہو سکیں۔ یہ لائبریری ایسے موقع پر قائم کی گئی جو آپ کی امور سلطنت سنبھالنے میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ 1924ء کا سال اس لئے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ امیر آف بہاول پور سر صادق محمد خاں کی رسم تاج پوشی اسی سال ادا کی گئی اور اسی موقع پر امیر نے اپنے وزراء اور عوام سے مشورہ کے بعد ایک عظیم لائبریری کے قیام کا اعلان کیا ۔ نواب مرحوم نے عوام میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئے کتنی عملی دلچسپی لی ۔اس کا اظہار لائبریری کے قیام سے ہوتا ہے۔ اب لائبریری کی تعمیر کے لئے جگہ درکار تھی ۔ امیر آف بہاول پور نے وسیع زمین لائبریری کی عمارت کے لئے مختص کر دی۔ امیر آف بہاول پور نے ذاتی دلچسپی سے اس کا نقشہ بنوایا جو کہ قدیم وکٹورین طرز کا تھا ۔ اس نقشہ میں ملکی و غیر ملکی ماہر انجینئرز کی آراء لی گئی ، بالآخر اسے حتمی شکل دے کر نواب آف بہاول پور سے اس کی منظوری لی گئی۔8مارچ 1924ء کو اس وقت کے وائسرائے ہند سر روفس آئزک ارل آف ریڈنگ نے اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اس لائبریری کا نام امیر آف بہاول پور اور وائسرائے ہند کے ناموں کی مطابقت سے ’’صادق ریڈنگ لائبریری‘‘ رکھا گیا ۔ سنٹرل لائبریری کی عمارت کی تعمیر کا کام 1924ء سے لے کر 1927ء تک جاری رہا۔یہ وہ دور تھا جب بہاول پور ریاست بھی معاشی مسائل کا شکار ہو چکی تھی۔ برصغیر میں ایک عجیب افراتفری کا عالم تھا ۔ بہت سی بیرونی اور اندرونی پیچیدگیوں کی وجہ سے عمارت کی تعمیر کا کام کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کر نا پڑا ۔ یہ کام کافی عرصہ ملتوی رہنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس عمارت کو بلدیہ بہاول پور کی تحویل میں دے دیا جائے اور بلدیہ بہاول پور عمارت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداران کے واجبات بھی ادا کرے ۔ بلدیہ بہاول پور نے لائبریری کی امارات کو1934ء میں مکمل کر لیا اور اسی میں اپنا دفتر قائم کر لیا ، بعد ازاں ریاست کی طرف سے فنڈز کی فراہمی پر یہ بڑی لائبریری بن گئی اور اس کا شمار ہندوستان کی بڑی لائبریوں میں ہونے لگا ۔ 1947ء میں قیام پاکستان سے چند ماہ قبل ریاست بہاول پور کے وزیر اعظم جناب مشتاق احمد گورمانی نے بہاول پور میں ایک اعلیٰ قسم کی لائبریری کی کمی شدت سے محسوس کی اور ’’صادق ریڈنگ لائبریری‘‘ کی تمام تاریخ کے سامنے تھی ۔ لہٰذا باہمی مشورے اور کونسل کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا گیا کہ بلدیہ بہاول پور کی لائبریری بمعہ فرنیچر کتب و دیگر لوازات تحویل میں لے کر عمارت ہذا میں سرکاری سطح پر ایک لائبریری کا اجراء کیاجائے جس کا نام سنٹرل لائبریری رکھا جائے اس فیصلے کے تحت عمارت ہذا کی بالائی منزل پر سنٹرل لائبریری کا اجراء کیا گیا ۔ اس کے اخراجات سرکاری خزانے سے باقاعدہ بجٹ کے تحت فراہم ہونے شروع ہوئے ۔ 1947ء تک یہ لائبریری عمارت کی بالائی منزل میں کام کرتی رہی ۔1952ء میں کتب کا ذخیرہ اس حد تک بڑھ گیا کہ بالائی منزل بھی ناکافی ہو گئی ۔ اس ضمن میں حکام سے رجوع کیا گیا ۔ سابق ریاست بہاول پور کے زیر کنٹرول یہ لائبریری قیام پاکستان کے بعد صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول آ گئی ۔حکومت نے اسے ہر سال فنڈ مہیا کرنا شروع کئے جو شروع شروع میں بہت ناکافی تھے ۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فنڈز میں اضافہ بھی کیا ۔ معیاری کتب مہیا کرنے میں لائبریری کی ہر ممکن مدد کی گئی۔ صادق پبلک سکول جو کہ ساڑھے 12ہزار ایکڑپر مشتمل ہے ، ہندوستان کے بہترین اور اعلیٰ ترین سکولوں میں شمار ہوتا تھا ، نواب آف بہاولپور نے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف یہ کہ نئے ادارے نہ بنائے گئے بلکہ پہلے سے موجود اداروں کا بھی برا حال کر دیا گیا ۔ نواب آف بہاولپور نے لاہور کے تعلیمی اداروں جیسا کہ کنگ ایڈورڈ ، پنجاب یونیورسٹی ، ایچ ای سن کالج ، اسلامیہ کالج لاہور و دیگر اداروں کو ہر سال لاکھوں کا فنڈ دیتے رہے۔ اب پھر سے بہاولپور کو ترقی کی شاہراہ پر لانے کی ضرورت ہے کہ قیام پاکستان کیلئے بہاولپور کی عظیم خدمات ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ
فیمینسٹ!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی