محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب سماج، کلچر، ادب اور لوک دانش کا احاطہ کرتی شاندار کتاب بلوغ الارب پچھلے کچھ دنوں سے زیرمطالعہ ہے۔ اس کی چار جلدیں ہیں، اردو سائنس بورڈ نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کی چوتھی جلد میں چند مشہور عرب فصحا، خطبا کا ذکر ہے۔ اس پر ایک کالم پہلے لکھ چکا ہوں، آج چند مزید فصیح عربوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بلوغ الارب میں ایک بہت مشہور فصیح عرب اکثم بن صیفی التمیمی کے فصیح کلام کی مثالیں نقل ہیں۔ اکثم بن صیفی نے اپنی قوم کو وصیت کرتے ہوئے خطبہ دیا تھا جو بہت مشہور ہوا۔ اکثم کہتا ہے ـ’’اے بنی تمیم میری نصیحت کو ضائع نہ کر دینا خواہ میری ذات تم میں نہ بھی رہے ۔عشق بیدار ہے اور عقل سوئی ہوئی ہے۔ خواہشات بے لگام ہیں، دانش مقید ہے۔ نفس آزاد پھرتا ہے ، سوچ اور تدبیر مقید ہے ۔ یاد رکھو کہ سستی کے باعث اور تدبیر کو ترک کرنے سے دانش تباہ ہوجاتی ہے۔ ’’ جو شخص اوروں سے مشورہ کرے گا ، اسے ضرور کوئی نہ کوئی راہ بتانے والا مل جائے گا ۔ جو صرف اپنی رائے پر عمل کرتا ہے ،وہ ایسے مقامات پر کھڑا ہوتا ہے جہاں سے وہ پھسلتا ہی رہے۔ جو دوسروں کی بات سنے گا،اس کی بات بھی سنی جائے گی۔ لالچ کی بجلیوں کے نیچے لوگوں کی قتل گاہیں ہیں۔ اگر تو مصائب کے مواقع پر غور کرے گا تو دیکھے گا کہ یہ شرفا کی خواب گاہیں ہیں۔ لوگوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا ہی ہدایت کا راستہ ہے۔ ’’جو ہموار زمین پر چلتا ہے، اسے پھسلنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ حاسد اپنے ہی دل کو تھکاتا ہے ۔ اے بنی تمیم حلم کے گھونٹ بھرنا اور صبر کرنا زیادہ شیریں ہے بہ نسبت ا سکے انسان ندامت کا پھل چنے ۔ جس نے اپنے مال کو بچانے کے لئے اپنی عزت کو سامنے کر دیا، وہ لوگوں کی مذمت کا نشانہ بنا۔ یا د رکھو کہ زبان کے لگائے ہوئے زخم نیزوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔جب تک کوئی کلمہ منہ سے نکل نہ جائے ، تب تک وہ گروی پڑا ہوتا ہے۔ پھر جب نکل جاتا ہے تو نہایت جنگجو شیر اور شعلہ زن ہوتا ہے۔ عقلمند ناصح کی رائے ایسے رہنما کا کام کرتی ہے جو راستے سے نہیں بھٹکتا۔ جنگ کے موقعہ پر رائے کو کام میں لانا نیزہ زنی اور تلوار زنی سے بھی زیادہ کارآمد ہوتا ہے۔ ‘‘ کہتے ہیں کہ مشہور سپہ سالار اور سردار یزید بن مہلب اپنے خطبوں، وصیتوں اور نصیحتوں میں بیشتر اوقات اکثم بن صیفی کا طرزعمل اختیار کیا کرتا تھا ۔ یزید بن مہلب نے اپنے بیٹے کو جرجان شہر میں اپنا جانشین بناتے ہوئے وصیت کی :’’بیٹا میں نے تمہیں اس علاقے میں اپنا جانشین بنایا ہے۔تمیم کے قبیلے پر نظر رکھنا، ان پر بارش برسانا ، ان کے سامنے غرور نہ کرنا، انہیں اپنا قرب عطا نہ کرناورنہ وہ مزید لالچ کرنے لگ جائیں گے۔ انہیں اپنے سے دور بھی نہ کرنا ورنہ وہ تعلقات منقطع کر لیں گے ۔ ’’بیٹا تمہارے باپ کے کچھ کارنامے ہیں، انہیں خراب نہ کرنا کیونکہ انسان کے لئے یہ بات بڑا عیب سمجھی جاتی ہے کہ وہ اپنے باپ کی کھڑی ہوئی عمارت کو گرا دے ۔ خونریزی کرنے سے بچنا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی بقا نہیں ہوسکتی ۔ لوگوں کی عزتوں کو برا کہنے سے بچنا کیونکہ شریف آدمی اپنی عزت کے عوض کوئی چیز بھی لینے پر راضی نہیں ۔ لوگوں کو مارنے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ ایک باقی رہ جانے والی عار اور ایسا کینہ ہے جس کے بدلے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اپنے عاملوں (افسروں)کوان کی بہادری اور فضیلت کی بنا پرمقرر کرنا نہ کہ محض مرضی کے مطابق ۔ کسی کو نااہلی اور خیانت کے سوا کسی اور بنا پرمعزول نہ کرنا۔ کسی شخص کو منتخب کرتے ہوئے اس لئے نہ رک جانا کہ تم سے پہلے کوئی شخص اسے منتخب کر چکا ہے کیونکہ تمہیں تو لوگوں کو ان کی ذاتی فصیلیت کی بنا پر منتخب کرنا ہے ۔ ’’لوگوں کو اپنے بہترین آداب پر چلنے کا حکم دینا، وہ اپنی جانوں کے ساتھ تمہاری مدافعت کریں گے۔ جب تم کوئی تحریر لکھو تو اسے کئی بار پڑھو۔ میرے اور تمہارے درمیان جو شخص قاصد بنے ، وہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو میری بات بھی سمجھتا ہو اور تمہاری بھی کیونکہ انسان کی تحریر میں اس کی عقل واضح ہوتی ہے اور قاصد اس کا رازدار ہوتا ہے۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ ‘‘ عمرو بن کلثوم التغلبی مشہور جاہلی عرب شاعر گزرا ہے، وہ اعلیٰ پائے کا خطیب بھی تھا۔ (یا درہے کہ مشہور افسانوی کردار عمرو عیار کی طرح عمرو کو پڑھنے کا درست طریقہ اردو کے لفظ اَمر کے طرح پڑھنا ہے، ام ر۔ )عمرو بن کلثوم کا ایک خطبہ بڑا مشہورہے۔ عمرو کہتا ہے:ـ ’’ خدا کی قسم میں نے جس کسی کو کسی بات کا طعنہ دیا، اس نے مجھے بھی اسی بات کا طعنہ دیا ہے ۔ اگر میں نے سچا طعنہ دیا تو اس نے بھی سچا طعنہ دیا۔ اگر میں نے غلط طعنہ دیا تو ا س نے بھی غلط طعنہ دیا۔ جس کسی نے گالی دی ، اسے بھی گالی دی گئی، لہذا گالی دینے سے باز رہو ، اس سے تمہاری عزتیں بچی رہیں گی۔ ’’ رشتے داری کے تعلقات قائم رکھا کرو، تمہارے گھر آباد رہیں گے۔ پناہ گیر کی عزت کرو، وہ تمہاری اعلیٰ تعریف کرے گا۔ عورتوں کی جگہ کو مردوں سے دور رکھو کیونکہ اس سے غیر محرموں کو دیکھنے سے نگاہیں باز رہتی ہیں اور مرد زیادہ پاک دامن رہ سکتا ہے۔ جو شخص اوروں کی خاطر اس طرح غیرت نہیں کھاتا جیسا وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے تو یہ بھلائی نہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی نے کسی کی بے حرمتی کی ہو اور پھر اس کی نہ ہوئی ہو۔ یاد رکھو دوستی مخالفت سے بہتر ہے۔ جب کوئی شخص بات کہے تو اسے یاد رکھو۔ جب تم کہو تو مختصر کہو کیونکہ بہت باتیں کہنے میں لایعنی باتیں پائی جاتی ہیں۔ ’’یاد رکھو قوم کا بہترین آدمی وہ ہے جو شفیق اور احسان کرنے والا ہو۔جو شخص غصے کے وقت سوچتا نہیں ، اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ وہ شخص بھی برا ہے جسے کسی برائی سے روکا جائے اور وہ باز نہ آئے ۔ کسی سے محبت کرنے میں حد سے زیادہ نہ بڑھ جایا کرو۔ یاد رکھو حلیم الطبع شخص آفات سے بچا رہتا ہے اور تلوار زخم لگاتی ہے ۔ ‘‘ بلوغ الارب کے مصنف نے ایک بدوی کے خطبے کا ذکر کیا جسے جعفر بن سلیمان نے کسی چشمے کا حاکم بنا دیا تھا۔ بدوی نے جمعہ کے دن خطبہ دیا،حمد وثنا کے بعد بولا:’’دنیا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے ہمیں آخرت تک پہنچا ہے اور آخر ت دار قرار ہے ۔ اس لئے تم اس گزرگاہ سے اپنی قرارگاہ کے لئے زادسفر لے لو اور اس خدا کے سامنے جس سے تمہارے اسرار مخفی نہیں ہیں، اپنی پردہ داری نہ کرو۔ اس سے پیشتر کہ تمہارے بدن اس دنیا سے نکل کر چلے جائیں ، تم اپنے دلوں کو اس سے نکال لو۔ تم اس دنیا میں زندگی گزار کر چلے جائو گے ، مگر تمہیں کسی اور گھر کے لئے پیدا کیا گیا۔ جب کوئی شخص مر جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے کیا چھوڑا ؟ جبکہ فرشتے پوچھتے ہیں کہ اس نے کیا کچھ آگے بھیجا ہے ؟خدا تمہارے آباء کا بھلا کرے ، کسی قدر مال آگے بھیجا کرو۔ یہ تمہارا قرض ہوگا۔ سارے کا سارا مال پیچھے نہ چھوڑا کرو، یہ تمہارے لئے بار بنے گا۔ ‘‘ زمانہ جاہلیت کے ایک فصیح مامور حارثی کی اپنے قبیلے سے کی گئی ایک گفتگو مشہور ہوئی ۔ وہ کہتا ہے ـ:’’تمہاری نفسانی خواہشات کو تمہارے خوشیاں منانے نے بلند کر دیا ہے اور گدلا پن تمہارے دلوں پر غالب آ گیا ہے، جہالت نے تمہاری نگاہ کو کمزور کر دیا ہے ۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے ۔ زمین پست ہے اور آسمان بلند، سورج طلوع بھی ہوتا ہے اور غروب بھی ۔ بے وقوف مالدار ہے اور ہوشیار کم مال والا۔ نوجوان عین جوانی میں مر جاتا ہے اور نہایت بوڑھا پیچھے رہ جاتا ہے ۔ کوچ کر کے چلے جانے والے واپس نہیں آتے اور جنہیں ٹھیرایا گیا، وہ آگے نہیں بڑھتے ۔ ان تمام امور میں خدا کے واضح دلائل ملتے ہیں۔ ’’ اے بھاگنے والے عقلو اور بھڑک اٹھنے والے دل رکھنے والو، تم کدھر بہکے پھر رہے ہواور کس طرف تیزی سے جا رہے ہو؟ اگر دلوں سے پردے اٹھا دئیے جائیں اور آنکھوں کے سامنے سے پردے دور ہوجائیں تو شک کا بادل پھٹ جائے گا اور یقین ظاہر ہوجائے گااور وہ شخص جس پر گمراہی غالب آ چکی ہے، وہ جہالت کے نشے سے جاگے اور ہوش میں آجائے۔ ‘‘ یہ تھاجاہلی عرب سماج یعنی پندرہ سو سال قبل کے چند عرب فصحا اور خطبا کا بیان۔ کیسے دانائی اور لوک دانش ان تجربہ کار لوگوںکے لفظوں میں سمائی ہوئی ہے۔ زندگی گزارنے اور نبھانے کے کیسے سنہری اخلاقی اصول۔دور حاضر کے بڑے پروفیشنل ٹرینراور موٹیویشنل سپیکرز کی تقریروں کی ٹکر کی گفتگو ان اَن پڑھ لوگوں نے پندرہ صدیاں قبل کی اور کیا فصاحت وبلاغت دکھائی۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر