وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل (سوموار) ٹیلی ویژن کا عالمی دن منایا گیا۔ انیس سو چھیانوے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رابطے، ترقی اور عالمگیریت کے فروغ میں ٹیلی ویژن کی کرداری اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اکیس نومبر کو ٹی وی سے معنون کر دیا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ریڈیو وجود میں آیا اور دوسری دہائی میں ٹیلی ویژن کی پیدائش ہوئی۔ برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ انیس سو چوبیس میں ایک اسکاٹش انجینئر جان لوئی بئیرڈ نے تصاویر کو لہروں کے ذریعے ایک مشین سے دوسرے مشین تک ارسال کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ جب کہ امریکیوں کا دعوی ہے کہ فلو ٹیلر فارن ورتھ نامی لڑکا جس کے گھر میں بجلی بھی نہیں تھی۔
اسے پندرہ برس کی عمر میں خیال آیا کہ ایسا کیا جائے کہ متحرک تصاویر کو ریاضیاتی کوڈ میں بدل کے ریڈیائی لہروں کے ذریعے ایک ایسے آلے تک منتقل کیا جا سکے جو ان لہروں کو دوبارہ ڈی کوڈ کر کے اسکرین پر دکھا سکے۔ فارن ورتھ کی کوششیں اکیس برس کی عمر میں بر آئیں جب الیکٹرونک بیم کے ذریعے اس نے ڈالر کی تصویر اپنی بنائی ایک مشین سے دوسری مشین تک بھیجنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
امریکی ٹی وی کی ایجاد کو اس کے عالمگیر اثرات کے اعتبار سے پندرھویں صدی میں جرمن چھاپہ خانے کی ایجاد کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔اسے تیسری سپرپاور کا نام بھی دیا جاتا ہے اور بعض دل جلے اسے ایڈییٹ باکس بھی سمجھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن نے بطور ایک نئے موثر میڈیم آنے والے برسوں میں امریکی معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔اور ان اثرات کو پھر باقی دنیا نے محسوس کیا اور اسی ماڈل کو اپنایا۔
انیس سو چالیس کے عشرے میں ٹی وی پر مصنوعاتی اشتہارات آنے لگے اور امریکا میں صارف کلچر (کنزیومر ازم) کا تیز رفتاری سے فروغ ہوا۔ تجارتی اداروں نے اس میڈیم کا اتنے بڑے پیمانے پر تشہیری استعمال شروع کیا کہ کچھ لوگوں نے ٹی وی کو ایڈیٹ باکس ہونے کا طعنہ دیا۔یہ تاثر پیدا ہونے لگا کہ ٹی وی دراصل مصنوعات کے منافع بخش فروغ کا ذریعہ ہے اور صارفین کو اس میڈیم سے جوڑے رکھنے میں اشتہارات کے بیچ کچھ ڈرامے اور روزمرہ دلچسپی کے موضوعات بھی شامل کر دیے جاتے ہیں۔
انیس سو پچاس تک دنیا میں صرف نصف کروڑ ٹی وی سیٹس تھے۔ان میں سے دو تہائی امریکی گھرانوں میں تھے۔آج ایک سو ستر ارب گھرانوں میں ٹی وی ہے اور اس پر نشر ہونے والے اشتہارات کا حجم پونے دو کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
انیس سو باون میں آئزن ہاور پہلے صدارتی امیدوار تھے جنھوں نے اپنی مہم کے اشتہارات کمرشل سطح پر ٹی وی پر نشر کروانے شروع کیے یعنی امریکی سیاست میں ایک نیا دور شروع ہوا۔
مگر ٹی وی کی فیصلہ کن سیاسی طاقت کا مظاہرہ انیس سو ساٹھ میں سامنے آیا۔جب تجربہ کار ری پبلیکن امیدوار رچرڈ نکسن اورجواں سال ڈیموکریٹ امیدوار جان ایف کینیڈی کا پہلی بار ٹی وی اسکرین پر منعقد ہونے والے ایک صدارتی مباحثے میں آمنا سامنا ہوا۔ اس سے پہلے ووٹروں میں نکسن کی مقبولیت زیادہ تھی۔ البتہ ٹی وی پر دو بدو مباحثے نے پانسہ کینیڈی کے حق میں پلٹ دیا اور وہ لگ بھگ ایک لاکھ بارہ ہزار ووٹوں کی اکثریت سے صدر بن گئے۔ آج صورت یہ ہے کہ پچاس فیصد امریکی ووٹر ٹیلی ویژن نشریات دیکھ کر اپنی سیاسی رائے بناتے ہیں۔
امریکا نے اس میڈیم کو بطور سافٹ پاور بھی استعمال کیا۔ایک امریکی سیریز ” لٹل ہاﺅس آن دی پریری“ ایک سو دس ممالک میں نشر ہوئی۔انیس سو اسی کے عشرے تک ایکویڈور کی ستر فیصد، کینیا کی ساٹھ فیصد، آسٹریلیا کی چھیالیس فیصد اور اسپین کی پینتیس فیصد ٹی وی نشریات امپورٹڈ امریکی پروگراموں کی مرہونِ منت تھیں۔ آج نیٹ فلیکس کے دو سو ملین سے زائد اور ڈزنی پلس کے پچھتر ملین سبسکرائبر ہیں۔ دونوں امریکی کمپنیاں ہیں۔
ٹی وی کی عالمگیر مقبولیت میں کچھ اہم واقعات نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔مثلاً جولائی انیس سو انہتر میں عالمی سطح پر چھ سو باون ملین ناظرین نے چاند پر نیل آرمسٹرانگ کی لینڈنگ دیکھی۔ محمد علی کی باکسنگ فائٹس دیکھنے کے لیے راتوں رات بے تحاشا ٹی وی سیٹ دنیا بھر میں فروخت ہوتے تھے۔ انیس سو پچاسی میں افریقہ کی قحط سالی سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے لندن میں ہونے والا ” لائیو ایڈ کنسرٹ “ ڈیڑھ سو ممالک میں دکھایا گیا۔انیس سو ستانوے میں لیڈی ڈیانا کا جنازہ براہ راست دو ارب ناظرین نے اپنے ٹی وی سیٹ پر دیکھا۔
بھارت میں دور درشن کی آزمائشی نشریات انیس سو انسٹھ میں دلی سے شروع ہوئیں۔یہ نشریات ہفتے میں دو دن ایک ایک گھنٹے کے لیے نشر ہوتی تھیں۔پھر انیس سو سڑسٹھ میں باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔انیس سو چھہتر تک دور درشن آل انڈیا ریڈیو کے ایک ذیلی شعبے کے طور پر کام کرتا رہا۔انیس سو بیاسی میں دور درشن کو ایک علیحدہ اتھارٹی کی شکل ملی۔
پاکستان میں باقاعدہ ٹی وی نشریات چھبیس نومبر انیس سو چونسٹھ کو ریڈیو پاکستان لاہور کے احاطے میں ایک خیمے سے جاپانی نشریاتی ادارے نپون الیکٹرک کارپوریشن اور برطانوی ادارے تھامس ٹیلی ویڑن انٹرنیشنل کی تکنیکی مدد سے شروع ہوئیں۔انیس سو پچھتر میں رنگین نشریات کا آغاز ہوا۔انیس سو نوے کے عشرے تک پی ٹی وی کی شناخت اس کا معیاری ڈرامہ تھا۔
اس کے علاوہ ہر عمر کے ناظرین کے لیے موسیقی کے پروگرام بھی ترتیب دیے جانے لگے۔ چھپن فیصد تفریحی پروگرام جب کہ پچیس فیصد پروگرام حالاتِ حاضرہ اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق تھے۔ انیس سو اسی تک پی ٹی وی پاکستان کے نوے فیصد رقبے میں دیکھا جا سکتا تھا۔
نوے کی دہائی میں پاکستان میں نجی شعبے کو ٹی وی نشریات کی اجازت ملی اور سن دو ہزار میں پرویز مشرف دور میں پرائیویٹ سیکٹر میں ٹی وی نشریات کے بیسیوں لائسنس جاری ہوئے۔اس وقت ملک میں اردو کے علاوہ مقامی قومتی زبانوں میں حالاتِ حاضرہ اور تفریحی پروگراموں کے متعدد چینلز ناظرین کے لیے دستیاب ہیں۔
ملک میں انگریزی زبان کے نیوز چینل بھی کھولے گئے۔ مگر آج انگریزی میں ایک بھی نجی چینل نہیں۔البتہ پی ٹی وی کا ایک چینل انگریزی زبان میں نشریات کے لیے وقف ہے۔
انیس سو اسی کے عشرے میں سی این این نے عالمی سطح پر اپنی نشریات شروع کیں تو حالاتِ حاضرہ کی پیش کاری کا تصور بھی بدل گیا۔ اس وقت بی بی سی ورلڈ اور الجزیرہ عالمی سطح پر مقبول نیٹ ورکس کے صفحہ اول پر ہیں۔
مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ عام آدمی کا انحصار ڈیجیٹل اور الیکٹرونک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑھتا جا رہا ہے۔ جس طرح کاغذ کے بجائے اخبار کو ویب سائٹ پر دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ِہے۔ اسی طرح قوی امکان ہے کہ روایتی ٹی وی چینلز رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھوتے چلے جائیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر