وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پونے سات سو ملین انسان مناسب بیت الخلائی سہولتیں نہ ہونے کے سبب آج بھی کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔یہی فضلہ طرح طرح سے انسانی استعمال کی اشیا میں شامل ہوتا رہتا ہے۔
اس فضلے کی ری سائیکلنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہمارے ہاتھ اور پاؤں ہیں۔مگر جس دنیا میں پینے کے صاف پانی کے لالے پڑے ہوں وہاں ہر انسان سے ہاتھ دھونے کی توقع کرنا اور وہ بھی صابن کے ساتھ سوائے دماغی خلل کے کچھ نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بھوکے سے کہا جائے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لو۔
چنانچہ اس دنیا میں آدھے سے زائد اسکولوں میں بھی صاف پانی یا ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ ٹائلٹ اور صاف پانی کے بحران کے سبب اسہال ، ہیضہ ، ٹائیفائیڈ، ہیپی ٹائٹس اور آنتوں کی سوزش جیسی قابلِ علاج بیماریاں انسان کو لاحق عام بیماریوں کا اٹھاون فیصد بنتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ یہ سب بیماریاں قابلِ علاج ہیں۔ ان کا تدارک دوا سے نہیں منصوبہ بندی اور گڈ گورننس سے باآسانی ممکن ہے اور یہ کوئی خسارے کا سودا بھی نہیں۔ہر ایک ڈالر جو صحت و صفائی کی سہولت پر خرچ ہوتا ہے اس سے بیماریوں میں کمی اور پیداواری کارکردگی کی بہتری کی شکل میں ریاست کو پانچ ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے۔مگر پھر اربوں ڈالر کمانے والی دوا ساز صنعت کا کیا ہو گا ؟
اگرچہ دو ہزار دس میں اقوامِ متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر میں صحت و صفائی کے لازمی انسانی حق کو بھی شامل کر لیا۔ اقوامِ متحدہ کے دو ہزار پندرہ میں طے کردہ ملینیم اہداف کے تحت سن دو ہزار تیس تک ہر انسان کو بنیادی بیت الخلائی سہولت فراہم کرنا بھی لازمی ریاستی فرض قرار دیا گیا ہے۔ لیکن دیگر اہداف کی طرح یہ ہدف بھی حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اس بیچ خود ہمارے ملک کی کیا حالت ہے ؟ الحمدللہ یہاں کی پچانوے فیصد مسلمان آبادی کو ہوش سنبھالتے ہی یہ حدیث ضرور کوئی نہ کوئی سناتا ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ پنچگانہ نماز کا مطلب ہی دن میں کم ازکم پانچ بار ہاتھ پاؤں منہ دھونا ہے۔مگر تصویر بالکل مختلف ہے۔
یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اسی فیصد گھرانے آلودہ پانی استعمال کرتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ لوگ کھلے میں اجابت پر مجبور ہیں۔بچوں کی ساٹھ فیصد اموات کا براہِ راست یا بلاواسطہ تعلق خراب پانی کے نتیجے میں پیٹ کی بیماریوں سے جڑا ہوا ہے۔ نصف پاکستانی بچے تو ویسے ہی اسکول سے باہر ہیں اور جو باقی نصف پڑھتے ہیں۔
ان میں سے بھی روزانہ پونے سات لاکھ بچے پیٹ کی مختلف بیماریوں کے سبب پڑھائی کا ناغہ کرتے ہیں۔سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پینتالیس فیصد سرکاری اسکول پینے کے صاف پانی اور تہتر فیصد اسکول بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔چنانچہ بچیاں بالخصوص اسکول جانے سے گھبراتی ہیں۔ترقی کے ماڈل پنجاب کی ایک چوتھائی آبادی آج بھی مناسب ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہے۔
عالمی بینک پاکستان کو انیس سو پچاس سے اب تک چالیس ارب ڈالر مختلف بڑے اور درمیانے ’’ گیم چینجر ‘‘ منصوبوں کے لیے فراہم کر چکا ہے۔پھر بھی حالت یہ ہے کہ عالمی بینک کی جانب سے گزشتہ برس پنجاب کے سولہ اضلاع میں ساٹھ لاکھ افراد کو صحت و صفائی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے چوالیس ملین ڈالر کی مدد فراہم کی گئی۔
گزشتہ برس اگست میں تب کے وزیرِ سائنس و ٹیکنا لوجی شبلی فراز نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ملک کے انتیس بڑے شہروں میں جو استعمالی پانی میسر ہے اس کی کم از کم نصف مقدار انسانی استعمال کے لیے نقصان دہ ہے۔
آبی وسائل پر تحقیق کے وفاقی ادارے ( پی سی آر ڈبلیو آر ) کے مطابق گلگت ، میر پور خاص اور شہید بے نظیر آباد ( نواب شاہ ) میں سو فیصد زیرِ زمین پانی مضرِ صحت ہے۔جب کہ ملتان میں زمین سے نکلنے والا چورانوے فیصد، کراچی میں ترانوے فیصد، بدین میں بانوے فیصد ، سرگودھا میں تراسی فیصد ، حیدرآباد میں اسی فیصد ، بہاول پور میں چھہتر فیصد ، مظفر آباد میں ستر فیصد ، سکھر میں سڑسٹھ فیصد ، لاہور میں ساٹھ فیصد ، فیصل آباد میں انسٹھ فیصد ، پشاور میں اٹھاون فیصد ، ٹنڈو الہ یار میں ستاون فیصد ، شیخوپورہ ، ایبٹ آباد اور خضدار میں پچپن فیصد ، لورالائی میں چون فیصد ، کوئٹہ میں تریپن فیصد اور گوجرانوالہ میں پچاس فیصد بورنگ والا پانی غیر معیاری ہے۔اس پانی میں تسلیم شدہ حد سے زیادہ سنکھیا ، آئرن ، فلورائیڈ ، جرثومے اور انسانی فضلے کے ذرات شامل ہیں۔
تو کیا بوتل والا مہربند پانی محفوظ ہے ؟ پانی کے معیار پر تحقیق کے وفاقی ادارے کی جولائی رپورٹ کے مطابق اکیس شہروں سے مختلف برانڈ ناموں سے فروخت ہونے والے پانی کے جو نمونے حاصل کیے گئے ان میں سے چھبیس برانڈ انسانی استعمال کے قابل نہیں۔پی سی آر ڈبلیو آر کی ویب سائٹ پر ان برانڈز کے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔
پینے کا صاف پانی اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے۔قانون کے مطابق صوبائی حکومتیں پانی کے معیار کی سال میں کم ازکم ایک بار جانچ پڑتال کی پابند ہیں۔مگر اس پابندی کا کس قدر احترام ہو رہا ہے۔اس کا اندازہ آپ کو ایک گلاس پانی پینے کے بعد پیٹ کی گواہی کی شکل میں مل سکتا ہے۔
اس وقت نائجیریا کے شہر ابوجا میں دو روزہ عالمی ٹوائلٹ کانفرنس ہو رہی ہے۔ورلڈ ٹوائلٹ آرگنائزیشن کی بنیاد انیس نومبر دو ہزار ایک کو سنگاپور کے ایک ارب پتی مخیر شخص جیک سم کی کوششوں سے رکھی گئی۔
انھوں نے اچھے خاصے ذاتی تعمیراتی کاروبار کو ایک ٹرسٹ کے حوالے کیا اور خود کو سماجی خدمات کے لیے وقف کر دیا اور اپنے لیے یہ مشن چنا کہ ہر انسان کو ٹوائلٹ کی بنیادی سہولت میسر ہونی چاہیے تاکہ غلاظت کے سبب پھیلنے والی بیماریوں کو لگام دی جا سکے۔
ورلڈ ٹوائلٹ آرگنائزیشن نے دو ہزار پانچ میں سنگاپور میں ایک تربیتی ٹوائلٹ کالج بھی قائم کیا۔اس پروگرام کے تحت دنیا بھر سے اب تک پانچ ہزار رضاکاروں کو ٹوائلٹ کی اہمیت کے پرچار ، منصوبہ بندی اور مددگاری کی آگہی دی جا چکی ہے۔دو ہزار آٹھ میں ٹائم میگزین نے جیک سم کو ماحولیات کا ہیرو قرار دیا۔دو ہزار تیرہ میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سو بائیس ممالک کے ووٹوں سے منظور قرار داد کے نتیجے میں انیس نومبر سالانہ عالمی یومِ بیت الخلا قرار پایا۔
کراچی میں میرے پڑوس میں آئیڈیاز دو ہزار بائیس کے تحت جدید اسلحے کی عالمی نمائش میں بتیس ممالک کا اسلحہ برائے فروخت پیش کیا گیا ہے۔
مگر ان میں سے ایک بھی ہتھیار اس قابل نہیں جو انسان کے سب سے بڑے دشمن یعنی آلودہ پانی کے سبب انسانوں پر حملہ آور بکٹیریاز اور وائرس کو ہلاک کر کے انسانی دفاع کو ’’ فول پروف ‘‘ بنا سکے۔ اس دنیا میں اگر کوئی فول پروف ہے تو وہ ہم عقل سے عاری خود ہیں۔بے شک انسان خسارے میں ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر