سعید اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں دوستوں کے ساتھ عمران خان اور اس کے جان نثار حامیوں کے متعلق بحث رہی۔ میرا خیال تھا کہ عمران خان کے زیادہ تر حامیوں کا تعلق ہمارے معاشرے کے لمپن پرولتاری
lumpenproletariat
طبقے سے ہے۔ دوست متفق نہ ہوئے۔ دراصل وہ لمپن پرولتاریہ کی طبقاتی اصطلاح کو مارکس اور اینگلز کی تحریروں کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بہتر ہو گا کہ مارکس اور اینگلز کی تحریروں کے چند اقتباسات کا احاطہ کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
مارکس اور اینگلز نے جو طبقاتی درجہ بندی کی اس کی روشنی میں اگر لمپن پرولتاری کی اصطلاح کو سمجھا جائے تو ان دونوں کے نزدیک یہ معاشرتی طبقہ انقلاب کی راہ میں نہ صرف روڑے اٹکاتا ہے بلکہ معاشرتی طبقات میں سب سے خطرناک طبقہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں، مارکس اور اینگلز، اس معاشرتی طبقے کی درجہ بندی کیسے کرتے ہیں۔ پہلے ایک وضاحت ضروری ہے کہ مارکسی طبقاتی نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ طبقاتی درجہ بندی کے اندر فرد کی حیثیت پیداواری عمل میں ان کے کردار سے متعین ہوتی ہے۔
کمیونسٹ منشور میں لمپن پرولتاری کی درجہ بندی میں اس طبقے کو سماجی گندگی سے منسوب کیا گیا۔ مارکس اپنی کتاب ”فرانس میں طبقاتی جدوجہد میں کہتے ہیں“ بڑے شہروں میں لمپن پرولتاری ایسا طبقہ ہے جسے واضح طور پہ صنعتی پرولتاریہ سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ بڑے شہر ایسے چوروں اور ہما قسم کے جرائم پیشہ افراد کی آبیاری کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کے بچے ٹکڑوں پہ پلتے ہیں، ایسے لوگ جن کا کوئی حتمی کاروبار نہیں ہوتا اور یہ اپنی بھکاری زندگی پہ نادم نہیں ہوتے ”لیکن شاید ایسا نہیں۔
لمپن پرولتاری کو بہتر سمجھنے کے لئے میرے نزدیک فرانسیسی مصنف ژاں ژینے کو پڑھنا بہتر رہے گا کہ جس کے ایک ناول کا مقدمہ سارتر نے لکھا، اور مشہور لمپن پرولتاری شاعر ژاں پال کلیبیخ کا ناول“ پیرس کے آوارہ گرد ”اس طبقے کو سمجھنے میں کافی مدد کر سکتا ہے۔ فرانس میں اس طبقے کے لئے بوہیمن کی اصطلاح بھی برتی جاتی ہے۔ مشہور امریکی ماہر سماجیات اور مارکسسٹ بروس فرینکلن مارکس اور اینگلز کی لمپن پرولتاری کی درجہ بندی میں بہت سے تضادات کا اشارہ کرتا ہے۔
بروس فرینکلن کے بقول کمیونسٹ منشور کے اسی ایک ہی پیرا گراف میں جس میں مارکس لمپن پرولتاری کو“ معاشرے کا سب سے نیچ طبقہ ”کہتا ہے اور پھر یہ دعوی بھی کہ“ لمپن پرولتاری کا صنعتی پرولتاری سے واضح فرق ہے ”وہیں مارکس یہ بھی کہتا ہے کہ لمپن پرولتاری کا دراصل تعلق پرولتاری طبقے سے ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ مارکس لکھتا ہے کہ“ فرانس کے پرولتاری کا سامنا ایسی فوج سے تھا جس کا تعلق اس کے اپنے طبقے سے ہی تھا ”لیکن اپنے مضمون“ لوئی نیپولین کا اٹھارواں برومئیر ”میں مارکس کا یہ بھی کہنا ہے کہ لمپن پرولتاری معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ہو سکتا ہے۔ “ بونا پارٹ جو کہ لمپن پرولتاری کا چیف ہے، وہی اس طبقے میں جو معاشرتی گند ہے کو ایسے طبقے کے طور پہ پہچانتا ہے کہ جس پر وہ غیر مشروط انحصار کر سکتا ہے۔ قصہ مختصر معاشرے کا کوئی بھی رکن جو بے روزگار ہوجاتا ہے وہ ”خود بخود“ لمپن پرولتاری کے طبقے کا رکن بن جاتا ہے۔
دوسری طرف ماؤ زے ڈنگ کا لمپن پرولتاری کا انقلاب میں ممکنہ کردار کے متعلق تجزیہ بالکل واضح ہے۔ بروس فرینکلن کا حوالہ ماؤ کے مضمون ”چینی معاشرے کا طبقاتی تجزیہ“ سے لیا گیا ہے۔ ماؤ لکھتے ہیں، ”دوسرے طبقات کے علاوہ، [ چین ] میں کافی بڑی تعداد میں لمپن پرولتاری طبقہ موجود ہے، یہ ان کسانوں پہ مشتمل ہے جن کے پاس زمین نہیں رہی ( اس میں شامل) وہ دستکار بھی ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ وہ بہت مشکل حالات میں ہیں۔
چین کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیسے سنبھالا جائے۔ یہ بہادر جنگجو ہیں مگر تخریب پسند ہیں۔ اگر ان کی بہتر رہنمائی ہو تو وہ انقلاب کی طاقت بن سکتے ہیں“ فرانز فینن کے تجزیے میں لمپن پرولتاری وہ طبقہ ہے جو بے زمین ہے۔ اگر ہم ماؤ اور فینن کے اس تجزیے کو پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی حالات میں پرکھیں تو کراچی شہر تو ملک کے طول عرض سے دیہاتوں سے بے روزگاری کے سبب ہجرت کرنے والوں کا بڑا مسکن ہے۔
جو مار کسی طبقاتی تجزیے میں لمپن پرولتاری طبقہ ہے۔ اب یہ پرکھنا ہے کہ کراچی میں مقیم لمپن پرولتاری کا مسکن کن کا بھرتی کا میدان ہے۔ مذہبی انتہا پسند اپنی بڑی قوت اسی طبقے سے حاصل کرتے ہیں۔ اگر ماضی میں ایم کیو ایم کے کیڈر کو دیکھا جائے تو الطاف حسین کے جان نثاروں کا زیادہ تر تعلق ایسے نوجوانوں سے تھا جو بے روزگار تھے اور جن کا کوئی واضح روزگار کا وسیلہ نہیں تھا۔ وہی لمپن پرولتاریہ ٹارگٹ کلر بھی بنا، بھتہ مافیا کا سرگرم کارکن بھی تھا۔
آپ ان کا ڈیٹا اٹھا لیجیے میری بات سے اتفاق کرنے لگیں گے۔ ادھر پنجاب میں ایک مذہبی فرقہ پرست تنظیم کے کارکنوں کا 1990 کی دہائی کا ڈیٹا اکٹھا کیجئے تو کوئی آپ کو عزیز کوٹا نہ ملے گا تو دوسرا اور لمپن پرولتاریہ۔ ملک اسحاق کی رحیم یار خان میں شاید پان کی دکان ہوا کرتی تھی۔ پنجاب میں حال ہی میں ایک اور مذہبی تنظیم سرگرم ہے جو ملک میں کافی جگہوں سے انتخابات میں تیسری قوت بن کی ابھری، اس کے کارکنوں سے ملنے کے بعد لمپن پرولتاری کی اصطلاح واضح ہو سکتی ہے۔ مزید ریاست نے لمپن پرولتاری کو اپنے مقاصد کے لئے کیسے بھرتا اس پہ تو کافی تحقیقی کام ہو چکا ہے بلکہ سپریم کے معزز جسٹس قاضی فیض عیسی کا فیض آباد دھرنے پہ دیا گیا فیصلہ پڑھ لیجیے اس سلسلے میں کافی رہنمائی ملے گی۔
رہی بات عمران خان اور اس کے لمپن پرولتاری حامیوں کی تو بروس فرینکلن اس سلسلے میں ہماری بہتر رہنمائی کرتے ہیں۔ بروس فرینکلن نے اپنے تجزیے کی بنیاد 1964 کی سفید فام امریکی طالب علموں کی نسلی پرستی کے خلاف تحریک پہ رکھی۔ بروس کے مطابق طالب علم اور بے روزگار نوجوان کا تعلق بھی لمپن پرولتاری طبقہ سے ہوتا ہے۔ طالب علم اپنے والدین پہ انحصار کرتا ہے وہ اپنے تعلیمی میدان میں محنتی تو ہو سکتا ہے مگر معاشرے کے پیداواری رشتوں میں اس کی حیثیت بھی لمپن پرولتاری کی سی ہوتی ہے۔
بروس فرینکلن کے بقول ”طالب علم یہ جانتا ہے کہ اس کی سپورٹس کار کا اصل مالک تو اس کا باپ ہے۔ طالب علم کا اپنا معاشرے میں پیداواری تعلق ایسے طبقے سے ہوتا ہے جس کا انحصار دوسروں پہ ہوتا ہے۔ “ تو کیا پاکستان میں نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری، در در کے دھکے جہاں ہر قدم پہ اس کی عزت نفس مجروح ہو اور جو معاشرتی سطح پہ اپنا کوئی واضح پیداواری رشتہ نہ بنا سکے وہ لمپن پرولتاری نہیں ہو گا؟ کچھ یہی کیفیت بیرون ملک کام کرنے والے افراد کی ہوتی ہے۔ جو بظاہر ایک طبقاتی پیداواری رشتہ رکھتے تو ہیں مگر وہ اپنی شناخت نہیں کر پاتے۔ وہ شناخت کے بحران کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی طبقہ، یعنی بے روزگار نوجوان اور بیرون ملک مقیم پاکستانی، آپ کو عمران خان کے جان نثار حامیوں میں واضح نظر آئے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر