نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان پر حملہ حقیقت یا ڈرامہ؟ ۔۔۔۔۔ || نذیر ڈھوکی

اخلاقی طور تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ عمران خان جمعہ کی شام اپنی پریس کانفرنس میں اپنے سیاسی مخالفین کی طرف سے ہمدردی کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کرتے اور وفاقی حکومت سے کہتے کہ حملے کی تحقیقات کرنے میں ان کی پنجاب حکومت کی مدد کرنے کو کہتے مگر ان کا رویہ مختلف تھا ۔

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات کی شام جب میڈیا پر عمران خان کے کنٹینر پر حملے کی خبر آئی تو صدر آصف زرداری، چیئرمین پیپلزپارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری، بی بی آصیفہ بھٹو زرداری وزیر آعظم میاں شہباز شریف، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی خان سمیت ملک کی سیاسی قیادت نے ان پر حملے کی مذمت کی اور ان کی صحت یابی کیلئے دعا کی ۔ عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کرنے والے شخص کو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن نے قابو بھی کردیا جسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا، غور طلب پہلو یہ ہے کہ عمران خان کے کنٹینر پر حملہ پنجاب میں ہوا جہاں ان کی حکومت ہے ، عمران خان کے کنٹینر پر حملہ کرنے والے شخص کے ایک نہیں دو ویڈیو بیانات سامنے آ چکے ہیں ان کے بیانیہ پر اعتبار نہ کیا جائے مگر اس حملہ آور کو قابو کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکن کا میڈیا پر دیا جانے والا بیان کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان کو چار گولیاں لگی تھیں اور ان کی ٹانگوں سے خون بھی بہہ رہا ہوگا تو وزیر آباد کے کسی ہسپتال کیوں نہیں لے جایا گیا وہاں سے ڈیڑھ دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر لاہور میں شوکت خانم ہسپتال لے جانا ان کی زندگی داو پر لگانے کی مجرمانہ غفلت کیوں کی گئی ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کو ہنگامی طور پر کسی نزدیکی ہسپتال لے جایا جاتا اور انہیں طبی امداد دی جاتی ۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے عمران کے سر کے اوپر گزرنے والی گولیاں گولیاں ٹانگوں میں کیسے لگیں؟ کیا معاملہ ماروں گھٹنہ پھوٹے آنکھ کی طرح تھا ، ارے عقلمند بھائیوں قتل کرنے والا سر ،سینہ یا پیٹ کا نشانہ لیتا ہے یہ تو ہو سکتا ہے کہ گولی کندھے یا بازو پر لگنے کی بجائے گھٹنے بھی نیچے پنڈلی کو لگے اور نشانہ بننے والے کا خون بھی نہیں بہے عجیب اور ناقابل اعتبار کہانی ہے یار ۔

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے ٹانگوں میں چار گولیاں لگنے کے درد سے بے نیاز شخص نے آپریشن سے قبل اسد عمر کے ذریعے بغیر کسی تحقیق کے اپنے اوپر ڈرامائی حملے کا ذمہ دار وزیراعظم، وزیر داخلہ اور فوج کے اعلی آفیسر کو ٹھہرایا۔

اخلاقی طور تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ عمران خان جمعہ کی شام اپنی پریس کانفرنس میں اپنے سیاسی مخالفین کی طرف سے ہمدردی کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کرتے اور وفاقی حکومت سے کہتے کہ حملے کی تحقیقات کرنے میں ان کی پنجاب حکومت کی مدد کرنے کو کہتے مگر ان کا رویہ مختلف تھا ۔

جمعرات کو پشاور میں حکومتی سرپرستی میں ہونے فوج کے اہم آفیسر کے گھر کے سامنے کیئے جانے والے تماشے اور جمعہ کے روز سرکاری سہولت کاری سے لاھور میں گورنر ہاوس پر حملہ ریاست کی رٹ پر حملے کے مترادف ہیں۔

میرے خیال میں ضروری ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور عمران خان کے کنٹینر اور شوکت خانم ہسپتال کے ریکارڈ کو اپنی تحویل میں لے کر تحقیقات کرے۔

۔یہ بھی پڑھیں:

لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی

نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی

نذیر ڈھوکی کے مزید کالم پڑھیے

About The Author