نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب کا لانگ مارچ ناکام نہیں ہوا، انہوں نے مقاصد پا لیے|| عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاحایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلفٹی ویچینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خان صاحب کے لانگ مارچ کے بعد کا پاکستان کیسا ہو گا؟ کیا اس میں تشدد، نفاق اور انتشار کی فضا ختم ہو جائے گی۔ کیا اب لوگ امن و چین کی باتیں کرنے لگیں گے؟ کیا سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے؟

میرا خیال ہے اب ایک پرسکون پر امن پاکستان کا خیال عبث ہو چکا ہے۔ جس طرح عمران خان اس ملک کو ہر شعبے میں تقسیم کر چکے ہیں وہ تقسیم اب بڑھتی ہی جائے گی۔ اب چاہے زخموں پر کتنی ہی مرہم کیوں نہ لگائیں خان صاحب ہر کچھ عرصے کے بعد ان زخموں کو کھرچنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔ جس نوجوان نسل کے ذہن میں نفرت کا سامان بھر دیا گیا ہے وہ اب نکل نہیں سکتا۔

اگرچہ لانگ مارچ اب کینسل ہو چکا ہے۔ گوجرانوالہ کے شہریوں اور پاکستان کے میڈیا کو اب کچھ چین میسر آیا ہے لیکن یہ کہنا کہ خان صاحب کا لانگ مارچ ناکام ہو گیا ہے بالکل خام خیالی ہے۔ انہوں نے جو مقاصد پانے تھے پا لئے ہیں۔

خود سوچیں اب کوئی توشہ خانہ کی چوری کا ذکر کر رہا ہے؟ کوئی فارن فنڈنگ اور ممنوع فنڈنگ میں اربوں ہڑپ کرنے کی بات کر رہا ہے؟ کوئی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے چندے سے چلنے والی پارٹی پر کوئی الزام لگا رہا ہے؟ کوئی فرح گوگی اور خان صاحب کے گھر والوں کی مبینہ کرپشن پر کوئی بات کر رہا ہے؟ کوئی لانگ مارچ میں عوام کی عدم دلچسپی کی بات کر رہا ہے؟ نہیں۔ اس لئے کہ خان صاحب نے جھوٹے بیانئے، شاطر سوشل میڈیا اور غلام الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنے جرائم پر ایسا پردہ ڈالا ہے کہ اب بات چیت کی نوعیت ہی مختلف ہو گئی ہے۔

اب موضوع بحث ہے کہ خان صاحب کو گولی لگی ہے یا نہیں؟ گولی ایک لگی ہے یا چار؟ ایف آئی آر درج نہ کروانے کی وجہ پرویز الہی کی ہٹ دھرمی ہے یا میڈیکو لیگل کروانے کا خوف؟ ایک ٹانگ مجروح ہوئی ہے یا گولی دونوں ٹانگیں چیر گئی ہے۔ خان صاحب پر وزیر آباد میں حملے کے بعد کتنے لوگ احتجاج کو نکلے؟ کتنے شہروں میں آگ لگی؟ کتنے موٹرسائیکل نذر آتش ہوئے؟ کتنی جگہ ٹائر جلائے گئے؟ کہاں کہاں ٹریفک رکی؟ کہاں کہاں نامناسب نعرے لگائے گئے؟ کس کس کے گھر پر حملہ کیا گیا؟ کون کون سے ٹینک نذر آتش کر دیے گئے؟

یہ موضوعات اتنے زیادہ ہیں کہ ہمارا میڈیا اس پر چھ ماہ تک جگالی کر سکتا ہے۔ ان حالات میں اصل موضوع کہیں بہت پیچھے رہ جائے گا اور خان صاحب کسی نئے پیام سے انصافیوں کے ذہنوں سے کھیل رہے ہوں گے

اصل بات یہ ہے کہ اس حملے کی وجہ سے خان صاحب کو فیس سیونگ مل گئی ہے۔ عوام میں ناکام لانگ مارچ کے باوجود نئی پذیرائی بھی مل گئی ہے۔ ہمدردی کے جذبات بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اداروں کے اوپر جو دباؤ خان صاحب نے ڈالنا تھا وہ ڈال دیا ہے۔ اب انہیں پتہ چل چکا ہے کہ نہ تو جلد الیکشن ہو رہے ہیں نہ تعیناتی میں ان کی مرضی شامل ہو رہی ہے۔ اب ان کے مقاصد اور منزلیں کچھ اور ہو چکی ہیں۔ انہوں نے اس لانگ مارچ اور اس حملے کے نتیجے میں آنے والی قیادت کو دباؤ میں رکھنا تھا۔ تاکہ اگلے سال ہونے والے الیکشن میں ان کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا چکے ہیں۔

خان صاحب کے قریبی احباب بتاتے ہیں کہ اب کچھ عرصہ امن رہے گا۔ پھر خان صاحب الیکشن سے پہلے ایک انقلابی بیانئے کے ساتھ منظر عام پر آئیں گے۔ اور ان کی توقع کے مطابق وہ مطلوبہ انتخابی نتائج بھی حاصل کر لیں گے۔

لیکن کچھ سوال اس تھیوری پر اٹھتے ہیں کہ جن کے کاندھوں پر سوار ہو کر خان صاحب آئے تھے اور اقتدار جانے کے بعد انہی کے سر ہو گئے کیا وہ کبھی خان صاحب پر دوبارہ اعتبار کر سکتے ہیں؟ جس نفرت کو خان صاحب نے ہوا دی ہے کیا وہ زخم چند ماہ میں مندمل ہو جائیں گے؟ کیا ایک دفعہ پھر ہائی برڈ نظام کا خطرہ مول لیا جاسکتا ہے؟ کیا تضحیک، تو ہین اور تذلیل کو بھلایا جا سکتا ہے؟ کیا ایک دفعہ پھر سارے نظام کو معطل کر کے ”نیا پاکستان“ بنایا جا سکتا ہے؟

فی الوقت یہ بتا دینا کافی ہے کہ خان صاحب کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ اب اگر وہ باہر نکلیں گے تو ہتھکڑیاں ان کا مقدر بنیں گی۔ اب کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا جائے گا۔ اب انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب اداروں کے بارے میں توہین آمیز کلمات گوارا نہیں کیے جائیں گے۔ اب آرام کریں اور الیکشن تک آرام کریں اس کے بعد پھر جو ہو گا وہ اس وقت دیکھا جائے گا۔ فی الحال پاکستان کو کسی خونی انقلاب کے بغیر چلنے دیں، فی الوقت پاکستان کو بنا کسی کسی خونی لانگ مارچ کے سوا چلنے دیں۔

حکومت کی جانب سے اور حکومتی اشتراک میں شامل پارٹیوں کی خاموشی بھی بہت بامعنی ہے۔ رانا ثنا اللہ کی ہر روز پریس کانفرنس، نواز شریف کے ایک ٹویٹ اور مریم نواز کی لندن سے ایک پریس کانفرنس کے سوا کچھ بھی ایسا نہیں جس سے ہم یہ کہیں کہ یہ عمران خان کے بیانئے کا مخالف بیانیہ ہے۔ یہ خاموشی بے سبب نہیں ہو سکتی۔ یوں لگتا ہے سب دم سادھ کر بیٹھے ہیں۔ کسی ایک اہم واقعے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور جیسے ہی وہ دن آئے گا بیانیے کی جنگ پھر لڑی جائے گی

اب تک پاکستان کا بچہ بچہ جان چکا ہے وہ کون سا بڑا واقعہ بڑی خبر وقوع پذیر ہونے والی ہے جس کے بعد سب کچھ بدلنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے ساتھ ہی بہت کچھ بدل جائے گا۔ افواہیں، اندازے، خدشات دم توڑ جائیں گے۔ پی ڈی ایم کی قیادت اسی لمحے کا انتظار کر رہی ہے۔ جبکہ خان صاحب اس لمحے کا اختیار اب تو بالکل ہی کھو چکے ہیں۔ اب ہو سکتا ہے وہ نئی قیادت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریں، اس کے خلاف بھی زہر اگلیں، اس کو بھی اپنی سیاست کی آگ میں جھلسائیں مگر یہ خان صاحب کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ نئی آنے والی قیادت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ان کے ماضی پر کسی ہائی برڈ نظام کی تہمت نہیں ہو گی۔ کوئی ون پیج کا نعرہ ان کے پاس نہیں ہو گا۔ در انصاف کے دروازے پر بھی ایک منصف آئین کی کتاب پکڑے کھڑا ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس وقت خان صاحب کی سیاست کی سیاسی منظر نامے میں کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author