وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اس ملک اور ان ممالک میں کوئی فرق نہیں جہاں ہر حساس آئینی و سرکاری عہدیدار اور سیاسی و ذاتی مخالف کا فون، دیوار، دیوار پر لگی پینٹنگ، ساٹھ انچ کا ٹی وی، کلائی کی گھڑی، ٹیبل لیمپ، پنکھا، مصنوعی پودا، کار، بینک، چوکیدار، ڈرائیور، خانساماں، الیکٹریشن، صفائی کرنے والا، میڈیا ہاؤسز حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی عمارت میں بنے چیمبرز اور پولنگ بوتھ تک کسی نہ کسی کے مخبر یا ویڈیوگرافر ہیں۔
بس یہ ہے کہ جن دیگر ممالک میں یہ چلن بطور ہتھیار عام ہے ان میں سے کسی کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ نہیں چپکا ہوا اور ان میں سے کوئی ملک بھی چادر اور چار دیواری کے تقدس پر اتنا زور بھی نہیں دیتا۔
آج کی تاریخ میں شاید ہی کوئی قابلِ ذکر کمرشل و دفتری عمارت، اہم نجی گھر، ریسٹ ہاؤس، گیسٹ ہاؤس، گالف کورس، کلب، ریسٹورنٹ، تھری، فور، فائیو سٹار ہوٹل کا کمرہ، کانفرنس ہال، بیڈ روم، یونیورسٹی کا لیکچر روم، بیت الخلا فول پروف یا مرئی و غیر مرئی، بصری و غیربصری سن گن سے پاک ہو۔
کچھ برس پہلے تک یہ آلات اور مہارت چنیدہ بارسوخوں اور گنے چنے اداروں کی تحویل میں تھی۔ اب ہر آڑھا ٹیڑھا کن ٹٹا ان آلات سے دوسروں کی خبر لے رہا ہے اور یہی آلات خود اس کی بھی رئیل ٹائم خبر اور ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔
جب سب کا احوال سب پر کھل جائے تو بلیک میلنگ کا ہتھیار بھی کند ہوتے ہوتے نیو نارمل ہو جاتا ہے۔ وہ زمانے اور تھے جب ایک خبر، ایک تصویر اور ایک ویڈیو کلپ کسی کی زندگی برباد کر کے اسے خود کشی کے دہانے تک دھکیل سکتا تھا۔
جب سے بلیک میلنگ ٹکے سیر ہوئی اس کا اثر بھی دھیلے برابر رہ گیا۔ لہذا اب سامنے والے کو دبانے یا نیچا دکھانے کے لیے کوئی اور بہتر اور مؤثر حربہ تلاش کرنا ہو گا۔
بہت اچھا ہوا کہ ایف آئی اے نے 24 گھنٹے کے اندر اندر پتا چلا لیا کہ اعظم سواتی کی فیملی ویڈیو اصلی نہیں بلکہ فوٹو شاپ ہے۔ عام طور سے ایف آئی اے اسی شکایت کی تحقیق کرتی ہے جس کا مطالبہ شکایت کنندہ خود تحریری طور پر کرے۔
کم از کم میرے علم میں نہیں کہ اعظم سواتی نے ایف آئی اے سے اس ویڈیو کی اصلیت پرکھنے کا کوئی مطالبہ کیا ہو۔ پھر بھی ایف آئی اے نے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں فی سبیل اللہ اس ویڈیو کا فرانزک کر کے فیصلہ بھی سنا دیا۔
اعظم سواتی کا دعویٰ ہے کہ یہ ویڈیو کوئٹہ کے بظاہر محفوظ جوڈیشل لاج میں ان کے قیام کے دوران شوٹ کی گئی۔ اسی لیے جب انھیں یہ ویڈیو موصول ہوئی تو انھوں نے فوراً اس کی تصدیق کر دی اور انھیں اس میں کوئی فوٹو شاپئیت محسوس نہیں ہوئی۔
اب یہ وضاحت ایف آئی اے کو کرنی ہے کہ آخر کس نے اس ویڈیو کا فرانزک کرنے کی درخواست دی یا حکم دیا۔ اگر ویڈیو جعلی ہے تو آیا یہ جعلی ویڈیو بھی کوئٹہ کے جوڈیشل لاج میں شوٹ کی گئی یا پھر اس لاج سے ملتی جلتی کسی جعلی جگہ پر شوٹ ہوئی تاکہ اصل کا دھوکہ بھی برقرار رہے۔
غالباً یہ پہلی بار ہے کہ جس کی ویڈیو بنی وہ اسے اصلی کہہ رہا ہے اور ایک وفاقی ادارہ اس کو جعلی ثابت کر رہا ہے۔ اگر یہ جعلی ہے تب بھی یہ ایف آئی اے کا کام ہے کہ وہ اپنے سائبر کرائم سیل کی مدد سے پتا چلائے کہ یہ کس نے اعظم سواتی کی اہلیہ اور بیٹی کو بھیجی تاکہ یہ تو اندازہ ہو کہ ایف آئی اے کی اصلی صلاحیت کتنی ہے اور اس کی پکڑ کن کن جعلیوں تک ہے۔
ویسے جب مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی نسل بدلنے کا عزم ظاہر کیا جا رہا تھا اور مسلمانی چیک کرنے کے لیے مقامیوں کی دھوتی میں جھانکنے کی تصویریں بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہو رہی تھیں۔
یا بھٹو دور میں امیرِ جماعتِ اسلامی میاں طفیل محمد کی عقوبت خانے میں جنسی بے حرمتی کی خبریں سینہ بہ سینہ پھیل رہی تھیں یا چار اپریل کی صبح پھانسی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی مسلمانی چیک کر کے اس کا بصری ریکارڈ محفوظ کیا جا رہا تھا (بھٹو کے آخری تین سو تئیس دن، مصنف کرنل رفیع الدین)۔
یا ضیا دور میں اداکارہ شبنم کو ان کے ہی گھر میں ریپ کے بعد فاروق بندیال سمیت سات طاقتور ملزموں کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلا۔ ایک بری ہو گیا، ایک کو 10 برس قید اور پانچ کو سزائے موت سنائی گئی۔
لیکن بھٹو کے لیے ملکی و بین الاقوامی رحم کی اپیلوں کو مسترد کرنے والے امیر المومنین نے مثالی رقیق القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شبنم کیس کے مجرموں کی موت کی سزا معاف کر دی اور پھر انھیں ریپ زدہ شبنم کی جانب سے بھی معافی مل گئی۔ پھر بھی جانے کیوں وہ پاکستان سے ہی چلی گئیں۔ البتہ معافی زدہ مجرم اپنے وطن میں ہی رہے (وطن کی مٹی گواہ رہنا)۔
نوے کی دہائی میں کراچی کے سی آئی اے سینٹر میں پیپلز پارٹی کی دو سرکردہ خواتین کے ساتھ ناقابلِ بیان سلوک ہوا یا محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوست اور جناح صاحب کے ساتھی سردار شوکت حیات کی عزیزہ وینا حیات کو جس طرح اجتماعی بھیانک کاری کا نمونہ بنایا گیا۔ اس کے بعد یہ ملک اور کسی کو نہیں بلکہ وینا حیات کو چھوڑنا پڑا۔
یا پھر 2005 میں سوئی میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ریپ کی چھان پھٹک سے پہلے ہی جس طرح ملزم کی بے گناہی کی قسم کسی اور نے نہیں بلکہ صدرِ مملکت پرویز مشرف نے کھائی اور اس سکینڈل کی پہلی سزا ریپ وکٹم شازیہ کو جبراً ملک چھوڑنے کی شکل میں ملی اور دوسری سزا اس سکینڈل پر سب سے زیادہ واویلا مچانے والے نواب اکبر بگٹی کو دنیا بدری کی شکل میں ملی۔
تب تلک فوٹو شاپ کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ تب کسی نے کسی کا کیا بگاڑ لیا۔ نہ سی آئی اے سینٹر کے نگراں سمیع اللہ مروت اور نہ ہی غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت اور نہ ہی کسی کیپٹن حماد پر کچھ ثابت ہو سکا۔
اس پوری رام کہانی کا مقصود یہ ہے کہ کسی اعظم سواتی یا غیر سواتی کو کسی بات پر اتاؤلا ہونے، رونے دھونے، منہ سے جھاگ نکالنے یا ہوا میں مکے چلانے کی ضرورت نہیں۔ جو ہونا ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو ہونا چاہیے وہ کسی کا باپ نہیں کروا سکتا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر