وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ برس پہلے اوائل سرما کی ایک سہ پہر گہرے بادل گھر کر آئے اور پھر ایسی برکھا برسی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ اب تو خیر دل و دماغ پر ایک مسلسل اداسی طاری رہتی ہے۔ ’دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے‘۔ چند سال پہلے جمہوریت کے شکستہ حال تجربے کی ایک دہائی مکمل ہوئی تو ایسی صورت نہیں تھی۔ گرما کی صبحوں میں بھیروں کی سمپورن سپتک اور سرما کی شاموں میں امید کے دیے لو دیتے تھے۔ دل کی ویرانی کے لئے داخلی اسباب لازم نہیں ہوتے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ خارج کی رائیگانی کو اس کیفیت میں دخل ہو۔ عمر کا آب رواں آواز دیے بغیر یوں آگے بڑھتا ہے کہ ایک کے بعد دوسری منزل کی خبر نہیں ہوتی۔
اس روز باراں نے ایسا رنگ جمایا کہ خاکسار سرخوشی کے عالم میں باہر نکل آیا۔ کیا دیکھا کہ ایک ٹہنی پر فاختہ نے گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ انڈوں سے بچے نکل آئے تھے۔ اگرچہ ایسے کمزور تھے کہ مینہ کی زوردار بوچھار میں اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔ فاختہ نے اپنے پر بچوں پر پھیلا رکھے تھے اور بارش کا زور ٹوٹنے تک وہیں ساکت بیٹھی رہی۔ بالآخر سب بچے طوفان سے بچ نکلے۔ عجیب دلگداز منظر تھا۔ مٹھی بھر جسامت کا پرندہ مگر مامتا کا وفور اور کمزور کی حفاظت۔ اب اس پیمانے پر کچھ خود احتسابی ہو جائے۔
مختار مسعود مرحوم کی دوسری تصنیف ’سفر نصیب‘ میں دو خاکے شامل ہیں، سلاست بیاں کے ایسے شفاف چشمے کہ نگاہ تہ تک اتر جاتی ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن والے خاکے میں دو جملے ایسے ہیں گویا آئندہ نسلوں کو اذن پرواز دیا گیا ہے، پختہ فکر فضل الرحمن نوجوان مختار مسعود کو نصیحت کرتے ہیں، ’پرانی دنیا کے کھنڈرات کی سیر کرو اور نئی دنیا کی تعمیر میں حصہ لو۔ یہ اتفاق تو خوش نصیب نسلوں کو میسر آتا ہے‘۔ مختار مسعود اپنی ذات کی حد تک اس آزمائش پر پورے اترے لیکن افسوس کہ ڈاکٹر فضل الرحمان کی مخاطب نسل کو متروکہ املاک کا تپ محرقہ، ذاتی مفاد کا ہوکا اور آزادی کے تقاضوں سے بے خبری کا پالا مار گیا۔ درویش کی رائے میں ہر نسل کو اپنے عرصہ حیات میں تعمیر و تخلیق کا ایک موقع ضرور ملتا ہے۔
گزشتہ صدی کے اواخر میں ہماری نسل کو بھی موسم گل کی نوید ملی تھی مگر ہم فہم اور کردار میں بالشتیے ثابت ہوئے۔ رفتگاں کے جام و سفال چکنا چور کر دیے۔ اقدار کی محل سرا منہدم کر دی۔ انفرادی کردار اجتماعی بندوبست کے در و بست سے متعین ہوتا ہے۔ ہم نے سیاسی رہنما کی ساکھ مٹی میں ملا دی، استاد کا مقام بے معنی کر دیا، انتظامیہ کو مفلوج کر دیا۔ صحافت کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔ عدل کے ایوانوں میں ریاکاری نے بسیرا کر لیا۔ حرف قانون پر موقع پرستی کا قلم پھیر دیا۔ دستور کو دفتر بے معنی میں بدل دیا۔ پارلیمنٹ گویا مرزا ظاہر دار بیگ کی کٹیا سے ملحقہ ویران مسجد ہے جہاں صدر مملکت کے خطاب کے دوران بھی خاک اڑتی ہے۔ اگر ریاست شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دینے میں کوتاہی کرے تو شہری ریاست ہی سے بدظن نہیں ہوتے، ایک دوسرے کی تکلیف سے بھی بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ ریاست کا انتظام مجروح ہوتا ہے اور انسانی ہمدردی ماند پڑنے لگتی ہے۔
گزشتہ ہفتے کا ایک واقعہ سنیے۔ لاہور میں دوسرے شہروں سے تعلیم یا معاش کے لیے آنے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں مختلف اقامت گاہوں میں قیام کرتے ہیں۔ ساندہ کے قریب ایسے ہی ایک نجی ہاسٹل میں ہماری ایک رفیق کار مقیم ہیں۔ فائزہ نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں تعلیم پائی ہے۔ یہ کچی بستی نما علاقہ خستہ حالی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
فائزہ نے ایک روز اپنی کھڑکی سے دیکھا کہ فیاض بٹ نامی ایک ہٹا کٹا مرد سات یا آٹھ برس کے ایک معصوم بچے کو بری طرح پیٹ رہا ہے۔ یہ بچہ غالباً خانہ بدوش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ فیاض بٹ اس علاقے کے متمول رہائشی ہیں اور اتفاق سے فائزہ کا ہاسٹل بھی ان کی خاندانی جائیداد ہے۔ بچے کی ماں اپنے لخت جگر کو بچانے کے لیے آگے بڑھی تو دولت اور رسوخ کے نشے میں چور فیاض بٹ نے اسے بھی بے دردی سے پیٹنا شروع کر دیا اور گھسیٹ کر اپنے مکان میں لے جانا چاہا۔ فائزہ نے بٹ صاحب کو تشدد سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اس دوران محلے والے تماشا دیکھتے رہے اور بٹ صاحب نے بچے کی والدہ کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ کسی محلے دار نے آگے بڑھ کر برہنہ عورت پر چادر ڈال کر سترپوشی کی کوشش کی۔ بالآخر فائزہ نے اپنا فون نکال کر اس واقعے کی ویڈیو بنا لی۔ دفتر میں ایک صاحب دل کولیگ نے یہ خبر مع ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ یہ خبر صوبائی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر تک پہنچی تو انہوں نے سی سی پی او لاہور کو مطلع کیا۔ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو بٹ صاحب کو گمان تک نہیں تھا کہ کسی خاتون کو بے لباس کرنے کے سنگین جرم کی سزا موت ہے۔
بٹ صاحب گرفتار ہوئے تو ان کے اہل خانہ نے ہاسٹل کی انچارج صاحبہ سے رابطہ کیا جنہوں نے فائزہ کو ڈرانے دھمکانے کی پوری کوشش کی۔ رات بھر اسے دھمکی آمیز فون آتے رہے۔ عدم تحفظ کے باعث فائزہ ہاسٹل واپس نہیں جا سکتی تھی۔ اگلے روز صحافی دوستوں کے رابطہ کرنے پر متعلقہ پولیس افسر نے ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ بٹ صاحب اب رہا ہو چکے ہیں۔ فائزہ اپنی نیکی کی پاداش میں بے گھر ہو چکی ہیں۔ خانہ بدوش عورت اور اس کے بچے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔
غور فرمائیے۔ ایک بے سہارا عورت اور اس کے بچے پر تشدد ہوتے دیکھ کر ایک نوجوان بچی کے سوا کسی محلے دار کو ظالم کا ہاتھ پکڑنے کی توفیق نہیں ہوئی جب کہ ایک اکیلی نوجوان لڑکی نے خطرہ مول لے کر مظلوم عورت کی مدد کی۔ بے شک ہمارے معاشرے کی غیرت کمزوروں بالخصوص عورتوں پر ظلم کرنے اور جرگے بٹھانے تک محدود ہے۔ اگر مظلوم کا ساتھ دینا بہادری ہے تو ہماری بیشتر بیٹیاں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہادر اور غیرت مند ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر