ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالیہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنیوالی شدید بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر دیہی آبادی ہوئی ہے اور زراعت کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوںسے بڑھ کر وسیب کا کاشتکار زیادہ پریشان اور فکر مند نظر آتا ہے۔ وسیب جو کہ بنیادی طور پر زرعی سماج ہے اور جسے انٹرنیشنل لینگویج میں فوڈ باسکٹ کا نام دیا گیا، کا حالیہ سیلاب میں 2010ء کے سیلاب سے بھی زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی مدد نہیں کی گئی۔ اعلانات بہت ہو رہے ہیں مگر سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ دو ماہ گزرنے کے باوجود بحالی کا عمل ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا۔ وسیب کے سیلاب متاثرین اور کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ صوبے مرکز سے اور مرکز صوبوں سے لڑ رہا ہے۔ اس لڑائی میں پسماندہ طبقے بری طرح کچلے جا چکے ہیں۔ وسیب میں ہونے والے احتجاج کے دوران یہ بات بار بار کی جا رہی ہے کہ وسیب کا اپنا صوبہ ہوتا تو سیلاب متاثرین کی یہ حالت نہ ہوتی۔ وسیب کے کاشتکار طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں اور زراعت کیلئے پانی بنیادی ضرورت ہے مگر پانی کہاں سے آئے؟اللہ تعالیٰ نے ہمارے خطے کو دریائوں کی دولت سے نوازا تھا مگر ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستان کے دریا بھارت کو دے دیئے جس کا عذاب ہم تو کیا ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی۔ پانی کی قلت کا یہ عالم ہے کہ قابل کاشت رقبہ تو اپنی جگہ رہا۔ زیر کاشت رقبہ کیلئے بھی پانی میسر نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو ٹیوب ویل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زرعی ٹیوب ویل بجلی سے چلتے ہیں یا آئل سے، یہ دونوں چیزیں پاکستان میں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ ہندوستان اپنے کاشتکاروں کو بہت سہولتیں دیتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں 50 کلو یوریا کھاد کی بوری پاکستانی کرنسی میں پونے آٹھ سو روپے جبکہ پاکستان میں اڈھائی سے تین ہزار روپے میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی زراعت میں کام آنیوالی تمام چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ ان میں زرعی آلات ٹریکٹر، ٹرالی، تھریشر وغیرہ سب کچھ مہنگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان روز بروز بدحالی کا شکار ہے اور زرعی پیداوار میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے اور پاکستان کو گندم و دیگر زرعی اجناس برآمد کرنے کی بجائے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ زراعت کا شعبہ حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں میں سمجھ ہوتی تو میٹرو اور اورنج ٹرینوں کی بجائے زراعت پر توجہ دیتے۔ زرعی پیداوار بڑھے گی تو معاشی بہتری آئے گی۔ انڈسٹری بھی چلے گی اور معیشت مستحکم ہو گی۔ کیا کبھی ایسا ہو گا؟ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زراعت میں استعمال ہونے والی چیزوں کے ریٹ ہمسایہ ملکوں سے زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ بلیک میں فروخت سے ریٹ کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔ وسیب کے چھوٹے کاشتکار غریب ہیں اور وہ کھاد ، بیج اور زرعی ادویات وغیرہ ادھار پر حاصل کرتے ہیں۔ دکاندار ادھار کا نام لیکر دگنی قیمت پر مال فروخت کرتے ہیں اور اسے منافع کا نام دیتے ہیں حالانکہ یہ سیدھا سیدھا سودی کاروبار ہے۔ سود مافیا نے غریب کاشتکاروں کو بری طرح جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ گندم کی فصل کے موقع پر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ غریب کاشتکار کی تمام گندم سود مافیا قرض کے بدلے میں اٹھا لیتا ہے اور غریب کاشتکار مہنگے داموں پرچون میں آٹا خرید کرتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ایک ظلم یہ بھی ہے کہ حکومت کاشتکاروں سے سستے داموں گندم خرید کرکے پھر مہنگی فروخت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اس سال 2000 روپے من گندم خرید کی گئی اور اب فلور ملز مافیا معدہ ، سوجی نکالنے کے بعد چار ہزار سے زائد قیمت پر آٹا فروخت کر رہا ہے۔ مزید ظلم یہ کہ حکومت کاشتکاروں پر احسان جتواتی ہے کہ حکومت نے امدادی قیمت پر گندم خرید کی ہے۔ کاشتکاروں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ حکومت عالمی مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق گندم کاشتکاروں سے خرید کرے۔ کاشتکاروں کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ فصلوں کی سپورٹ پرائس اصل اور حقیقی ہونی چاہئیں اور فصل کی آمد سے پہلے سپورٹ پرائس کا اعلان ہونا چاہئے۔ کاشتکاروں کی تباہی کا ذمہ دار مڈل مین بھی ہے۔ مڈل مین آڑھتی کا آلہ کار ہوتا ہے اور وہ آڑھتی کی معرفت کاشتکار کا استحصال کرتا ہے۔ آڑھتیوں نے غلہ منڈی اور سبزی منڈیوں میں کمیشن شاپ کھول رہے ہیں۔ صنعتکار کی پیداوار براہ راست فروخت ہوتی ہے۔ صرف ایک زراعت کا ہی شعبہ ہے جس کا قدم قدم پر استحصال ہوتا ہے۔ کمیشن کلچر کو ختم کرنے کیلئے کمیشن شاپس ختم کرانا ضروری ہے۔ کاشتکاروں کیلئے سستی بجلی کی فراہمی کیلئے سولر انرجی سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ چولستان میں بیس ہزار ایکڑ پر سولر انرجی کا پلانٹ لگایا گیا۔اس کا کاشتکار کو ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ملا۔ کاشتکاروں کو سہولت دی جائے تو وہ خود بھی بائیو گیس پلانٹ لگا سکتے ہیں۔ نہری پانی کی چوری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بڑے زمیندار اور چودھری پانی چوری کراتے ہیں۔ غریب کاشتکار کو اس کے حصے کا پورا پانی نہیں ملتا۔ ٹیل کا غریب کاشتکار تو بالکل ہی تباہ ہو جاتا ہے۔ با اثر لوگ پانی چوری افسران کی آشیر باد سے کرتے ہیں۔ عام آدمی سے لیکر ایوان وزیر اعظم تک سب کو اس بات کا علم ہے کہ پانی چوری کون کرتا ہے اور کون کراتا ہے۔ اس کے باوجود کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پانی چور خود اسمبلی اور ایوانوں میں موجود ہیں۔ پاکستان کو زراعت میں خود کفیل بنانا ہے تو نام نہاد زرعی پالیسی ختم کرکے حقیقی زرعی پالیسی لانا ہو گی۔ کاشتکاروں کو کھاد، بیج، ٹریکٹر، ڈیزل اور بجلی کی فراہمی کیلئے کشادہ دلی کے ساتھ سبسڈی دینا ہو گی اور فی ایکڑ پیداوار کے اضافہ کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر حکومت ایک مرتبہ ہمت کرکے کاشتکاروں کو یہ چیزیں مفت فراہم کر دے تو پاکستان میں سبز انقلاب آجائے گا اور درآمدات پر جو بھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ پاکستان کو اس کا فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر