ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
26 ستمبر کو معروف سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی برسی منائی گئی۔ خان گڑھ میں منعقدہ ہونیوالی تقریب میں نوابزادہ منصور علی خان نے کہا کہ سیاسی خدمات کے پیش نظر نوابزادہ نصراللہ خان کو بابائے جمہوریت اور مفاہمت کے بادشاہ کا لقب حاصل ہوا۔ مقررین نے نوابزادہ نصراللہ خان کی خدمات کو خراج عقید ت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم ان کو یاد کرتے ہیں ۔ انہوں نے 23 مارچ 1940 ء کو قرارداد پاکستان کے جلسے میں شرکت کی اور آزادی کیلئے عملی جدوجہد کی ۔نواب زادہ نصر اللہ خان 1918 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم آبائی قصبہ خان گڑھ میں حاصل کی ۔ گلستان بوستان اور مثنوی شریف کے اسباق مقامی علماء سے پڑھے ۔ بعد میں ایچی سن کالج لاہور میں داخل ہوئے ۔ 1937 ء میں ملتان کے نواب خاں خاکوانی خاندان میں شادی ہوئی ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بچپن سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔ 1930 ء سے 2003ء یعنی نوعمری سے لے کر وفات تک انہوں نے طویل سیاسی سفر طے کیا ۔ وہ ہر فوجی آمر سے ٹکرائے ، اس لئے ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ، آپ اٹک ، کوٹ لکھپت، بہاولپور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی ، میانوالی اور مچھ جیل میں یکے بعد دیگرے 17 سال قید رہے ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کے سیاسی پس منظر پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مجلس احرار سے وابستگی اختیار کی ۔ یہی وجہ ہے کہ بطلِ حریت سید عطا اللہ شاہ بخاری ان کے قریب ہوئے اور ان کی ہی دعوت پر انہوں نے مستقل سکونت ملتان میں اختیار کی ۔ مجلس احرار سے ان کی علیحدگی اس بناء پر ہوئی کہ مجلس احرار نے قیام پاکستان کی مخالفت کی جبکہ نواب زادہ نصر اللہ خان قیام پاکستان کے حامی تھے اور انہوں نے پاکستان کے قیام کیلئے وسیب میں تحریک چلائی اور بڑے بڑے جلسے کئے ۔ قیام پاکستان کے بعد 1951 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ،یہ دور مسلم لیگ کے داخلی انتشار کا دور تھا ، بانی پاکستان قائد اعظم وفات پا چکے تھے ، اسی بناء پر نواب زادہ نصر اللہ خان نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر جناح عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔1958 ء میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا، اس کے ساتھ ہی نوابزادہ نصر اللہ خان نے جمہوریت کیلئے جدوجہد شروع کر دی ۔ 1962 ء میں جمہوریت کی بحالی کیلئے نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ قائم ہوا۔ مغربی پاکستان میں اس کے کنوینئر نوابزادہ نصر اللہ خان اور مشرقی پاکستان میں نور الامین تھے ۔ 1964 ء میں خواجہ ناظم الدین سابق گورنر جنرل کی رہائش گاہ پر ڈھاکہ میں ایک اور اتحاد تشکیل پایا جس میں وفاقی پارلیمانی نظام اور ایوب خان کی برطرفی کا مطالبہ ہوا۔ اسی موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کو کمبائنڈ اپوزیشن کی جانب سے ایوب خان کے مقابلے میں امیدوار نامزد کیا گیا ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کیلئے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا ۔ 1966 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان کو گرفتار کر لیا گیا ۔ رہائی کے بعد 26 ستمبر 1967 ء کو نوابزادہ نصر اللہ خان نے جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کا زیادہ وقت لاہور میں گزرتا ان کی جماعت کے اہم رہنما حاجی حمید الدین انصاری جو کہ ملتان کی انجمن تاجران کے بھی رہنما تھے اور بعد میں وہ سرائیکستان قومی کونسل میں شامل ہوئے اور اس کے نائب صدر بنے ، بتاتے تھے کہ مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان سے کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا، اگر اختلاف تھا تو اس بات کا کہ ہم جب بھی کہتے کہ ہمارا وسیب محرومی کا شکار ہے ، ہمارے وسیب میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ، نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں ، ہمارا صوبہ نہیں بن رہا ، آپ آواز بلند کریں تو وہ منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ میں اتنا بڑا لیڈر ہوں ، آپ میرے منہ سے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں کیوں اگلوانا چاہتے ہیں ۔ میرے خیال میں یہی ایک وجہ تھی کہ وسیب میں ان کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی ۔ 1969 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی اور اس دوران ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے خلاف تحریک چلائے ہوئے تھے جس کی بناء پر ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا ۔ یحییٰ خان کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں حکومت الیکشن کرانے پر مجبور ہوئی ، مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جس کی بناء پر ملک دو لخت ہوا ، بقیہ پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو بنے ، بھٹو نے 1977 ء میں قبل از وقت الیکشن کرائے ، دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن نے نواب زادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں 5 جولائی 1977 ء کو ضیاء الحق نے مارشل لالگا کر جمہوریت کا بورا بسترہ گول کر دیا ، اس موقع پر یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ نواب زادہ نصر اللہ خان جمہوریت کے دوران مارشل لا ء کی راہ ہموار کرتے ہیں اور جب مارشل لاء لگتا ہے تو پھر جمہوریت کیلئے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں ۔1988 ء کے الیکشن میں نواب زادہ نصر اللہ خان مظفر گڑھ سے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے غلام اسحق خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا ،آپ 26 ستمبر 2003ء کو وفات پا گئے ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان بہت بڑے سیاستدان کے ساتھ شاعر اور ادیب بھی تھے ۔ ان کے تذکرے کے بغیر تاریخ پاکستان مکمل نہیں ہو سکتی۔ ٭٭٭٭٭
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر