وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جب کہ بارشوں کا زور ٹوٹ چکا ہے اور دریاﺅں کا شکم بھی بھر گیا ہے۔ تباہی کی گہرائی صاف دکھائی دینے لگی ہے۔ مجموعی طور پر چھ ہزار چھ سو پچھتر کلومیٹر سڑکیں اور دو سو ستر پل بہہ گئے ہیں۔ صوبہ وار تصویر دیکھی جائے تو بلوچستان میں بیسیوں چھوٹے چھوٹے ڈیم ، اٹھارہ پل اور پندرہ سو کلومیٹر راستے آسمانی و پہاڑی پانی کی نذر ہو چکے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں پندرہ سو پچھتر کلومیٹر سڑک اور ایک سو سات پل بہہ گئے۔ سندھ میں دو ہزار سات سو کلومیٹر سڑک اور تریسٹھ پل ختم ہو گئے۔جب کہ جنوبی پنجاب میں نو سو کلومیٹر سڑک اور سولہ پلوں کو نقصان پہنچا۔ اس سیلاب سے سکول کی اٹھارہ ہزار عمارات کو کلی یا جزوی نقصان پہنچاجب کہ ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ صحت مراکز بھی جزوی یا کلی تباہ ہو گئے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ٓج میں جان و مال و ارب ہا روپے کے معاشی نقصانات کے کسی پہلو پر بات کرنے کے بجائے پل ، سڑک ، سکول ، ڈسپنسری وغیرہ پر کیوں اتر آیا ہوں۔ذرا غور فرمائیے۔بڑے چھوٹے ڈیم ، سڑک ، پل ،سکول اور مراکز صحت وغیرہ کی نوے فیصد تعمیر سرکاری سیکٹر کرتا ہے۔
گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کے دو ہزار پانچ کے زلزلے، دو ہزار دس اور گیارہ کے سیلاب اور دو ہزار بائیس میں جاری آبی قیامت کے نتیجے میں منہدم ہونے والا اسی فیصد تعمیراتی ڈھانچہ سرکار نے تعمیر کیا تھا۔انگریز دور کی تعمیرات آج بھی کسی حد تک کارآمد، سلامت یا جزوی طور پر مفید ہیں۔ مگر آزادی کے بعد مفادِ عامہ کے نام پر ہونے والی تعمیرات کا معیار بتدریج اتنا گرتا چلا گیا کہ اب تعمیرات کی معمولی شد بد رکھنے والا شخص بھی چھوئے بغیر بتا سکتا ہے کہ یہ اسٹرکچر کتنی مدت تک برقرار رہے گا۔
پہلے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں اسٹرکچر دو یا تین عشرے نکال لے گا۔اب بات عشروں سے گزر کے برسوں سے ہوتی مہینوں اور دنوں تک پہنچ گئی ہے۔بلکہ بعض تعمیراتی منصوبے تو افتتاح کے ایک ہفتے بعد ہی اپنی اصلی اوقات دکھا دیتے ہیں۔
یہ گورکھ دھندہ کیا ہے۔ وہ کون لال بھجکڑ ہیں جو ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں ، وہ کون سے ٹھیکیدار ہیں جو ان منصوبوں کو مکمل کرتے ہیں، وہ کون سے انجینئر ہیں جو ان منصوبوں کی پائیداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں اور وہ کون سے محکمے ہیں جو اس منصوبے کا بجٹ بے باق کر کے اگلے برس اسی منصوبے کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے مختص رقم بانٹنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
میں سوشل میڈیا پر بلوچستان کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کی بات چیت دیکھ رہا تھا۔ انھوں نے سرکاری منصوبوں کے ٹھیکوں کی سائنس پر جو روشنی ڈالی اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔یہ کہانی محض ایک صوبے کی نہیں ہے۔
ٹھیکیدار پر آخر میں ہر کوئی ملبہ ڈال کے بری الزمہ ہو جاتا ہے مگر ٹینڈر جاری ہونے سے پروجیکٹ کی تکمیل تک ایک لمبی زنجیر ہے جس کے آخری سرے پر پروجیکٹ ہوتا ہے۔ زنجیر کے ایک سرے پر متعلقہ وزیر ، سیکریٹری ، منتخب نمائندہ ، ایگزیکٹو انجینئر ، دفتری عملہ اور دوسرے سرے پر ٹھیکیدار ہے۔
سب کہنے کی باتیں ہیں۔ عملاً کوئی ڈویلپمنٹ پالیسی نہیں ہوتی۔اوپر سے نیچے تک سب کا ایک ہی ایجنڈہ ہے۔ دبا کے ٹینڈرنگ کرو تا کہ چار پیسے بنیں۔ پروجیکٹ کی فنانشنل فیزنگ کا بھی کوئی تصور نہیں کہ کل لاگت کتنی مدت پر تقسیم ہوگی تاکہ پروجیکٹ بروقت مکمل ہو سکے۔ نہ ہی پروجیکٹ کے زیرِ تعمیر یا تکمیلی مرحلے کی نگرانی کرنے کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی ہوتی ہے۔ اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا کاغذ پر وجود ہوتا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت یا خام مال کی قیمت بڑھ جائے تو عموماً اس کی بھرپائی بھی ٹھیکیدار کی جیب سے ہوتی ہے، اور پھر وہ اس کا ازالہ مزید ناقص میٹریل لگا کے کرتا ہے۔
جب کسی بھی پروجیکٹ کا پی سی ون منظور ہوتا ہے اور پیسے ریلیز ہوتے ہیں تو چودہ فیصد وزیر کا ، دس فیصد ٹینڈر کی منظوری دینے والے افسر کا ، چھ سے سات فیصد ذیلی عملے کا، سات فیصد انکم ٹیکس اور بیس فیصد ٹھیکیدار کے منافع کی مد میں چلے جاتے ہیں۔ یعنی سو میں سے انچاس پچاس روپے وہیں بٹ بٹا جاتے ہیں۔اب پچاس روپے میں سو روپے مالیت کا جو منصوبہ تعمیر ہو گا اس کی پائیداری کا معیار کیا ہوگا۔ مگر کوئی کسی کا احتساب نہیں کر سکتا۔کیونکہ سسٹم ہی ایسا بنا ہوا ہے۔ چور کیسے دوسرے چور کو پکڑے گا۔
ہر نیا وزیراعلیٰ پچھلے وزیرِ اعلیٰ کے زیر تعمیر منصوبوں کو مکمل کرنے سے زیادہ دلچسپی نئے منصوبوں کا فیتہ کاٹنے میں لیتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر کوئی باہر کا شخص سو روپے کے منصوبے کو ساٹھ سے ستر روپے میں مکمل کرنے اور سرکاری رقم بچانے کا کوئی منصوبہ لائے تو اس کی حوصلہ افزائی کم اور حوصلہ شکنی زیادہ ہوتی ہے۔منطق یہی کہتی ہے کہ جتنا مہنگا منصوبہ ہوگا اتنا ہی حصہ بڑا ہو گا۔ جتنے کم بجٹ کا منصوبہ ہو گا اتنا ہی منافع بھی گھٹ جائے گا۔
منصوبے میں پائیداری کے بجائے نمائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔برسوں تک قائم رہنے والی سڑک، سکول ، ڈیم ، صحت مرکز کی عمارت کوئی پسند نہیں کرتا۔ بس اتنی زندگی ہو کہ ایک دو سیزن گزار سکے،تاکہ پھر نئے ترقیاتی بجٹ سے اس کی دوبارہ تعمیر ہو سکے اور سب کی انگلیاں ایک بار پھر گھی میں ہوں۔
ممکن ہے کہ ٓپ اور میں قدرتی آفات سے ڈرتے ہوں اور ان کے ٹلنے کی دعا مانگتے ہوں،مگر تعمیراتی مافیا کے لیے ہر قدرتی آفت کمائی کا ایک نیا موقع ہے۔یعنی جو گرے گا وہ پھر بنے گا۔ اور ہم ہی تو بنائیں گے۔
زلزلہ اور سیلاب تعمیرات میں چھپی کرپشن اپنی چادر میں چھپا لیتا ہے،اور پھر سب دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے چہروں پر افسردگی طاری کرتے ہوئے کہتے ہیں۔بس جی یہ تو آزمائش ہے ، ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔اوپر والا ہی ہم پر رحم کرے گا۔ پھر نئی ٹینڈر بازی شروع ہو جاتی ہے۔
خدا بھی حیران ہوتا ہوگا کہ کیسے کیسے ح…سے پالا پڑا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر