نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاک بحریہ اور سیلاب متاثرین کی خدمت۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ پانی کا نام زندگی ہے۔ پانی کے بغیر کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی لیکن پانی حد سے بڑھ جائے تو یہ حیات کو موت میں بدلنے کا باعث بنتا ہے۔ اس سال کا بد ترین سیلاب سب کے سامنے ہے۔ موجودہ سیلاب کی تباہی 2010ء کے سیلاب سے بھی زیادہ ہے۔ وسیب میں سیلاب رک گیا ہے مگر سیلاب سے ہونیوالی تباہی کے بعد بحالی کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں اب بھی جاری ہیں۔ منچھر جھیل سے درجنوں دیہات غرق اور سینکڑوں متاثر ہوئے ہیں۔ جھیل کے ٹوٹنے سے مالی نقصان کے علاوہ جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ بارشوں اور سیلاب کا پانی سمندر میں جا رہا ہے۔ پانی کا سب سے بڑا مرکز اور منبع سمندر ہی ہے۔ زمین کے 70 فیصد سے زائد حصہ پر پانی ہے اور تھوڑا حصہ خشکی کا ہے۔ فضائی اور زمینی راستوں کی جدید سہولتوں کے باوجود اب بھی سفر کا بڑا ذریعہ آبی گزر گاہیں ہیں۔ سمندر صرف پانی کا نام نہیں اس میں بڑے بڑے خزانے بھی پوشیدہ ہیں۔ سمندر کے جزائر کی اپنی ایک زندگی ہے۔ سمندر جہاں اپنی مرضی کا مالک ہے جب چاہے خشکی کو ہڑپ کر لے۔ البتہ انسان بھی سمندر سے لڑتا آرہا ہے۔ جیسا کہ کراچی میں سمندر سے بہت سے علاقے چھین کر انسانوں نے بڑے بڑے پلازے بنا لیے ہیں۔ سمندر بڑی چیز کا نام ہے اور اس پر جنگیں اور جھگڑے بھی بہت ہوتے آرہے ہیں۔ جہاں بحری جنگ کا نام آئے تو وہاں بحری فوج کا نام خصوصیت سے لیا جائے گا۔ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جس کی حدود میں سمندر کا قابل ذکر حصہ آتا ہے۔ اسی بناء پر ہماری بحری فوج بھی دنیا کی بہترین فوج شمار ہوتی ہے۔ اگر ہم بحریہ کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد چار مائن سوئیپر ( سرنگیں صاف کرنے والے ) بحری بیڑے میں شامل ہوئے ، ان کے پاکستانی نام رکھے گئے ۔ مالوہ کا نام پشاور، گری نوچ کا نام بلوچستان ، کاٹھیاواڑ کا چٹاگانگ اور رام پور کا نام لاہور رکھا گیا ،ایک ٹرانٹر ’’ بڑدوہ ‘‘ بھی پاکستان کے حصے میں آیا جس کا نام بہاولپور رکھا گیا ۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پاک فوج کیلئے سابق ریاست بہاولپور کی بہت خدمات ہیں ۔ بہاولپور نے اپنی شاندار رجمنٹ پاک فوج کے حوالے کی، جو کہ بعد میں بلوچ رجمنٹ میں ضم کی گئی حالانکہ اسے اپنی اصل شناخت کے نام سے برقرار رہنا چاہئے تھا ۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے پاس بہت بڑی بحری فوج نہ تھی ، کہا جاتا ہے کہ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان کے حصے میں آنے والے جہازوں پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا تو وہ تعداد میں صرف چار تھے وہ بھی محض فریگیٹ جو رائل انڈین نیوی کے بیڑے سے جدا ہو کر کراچی پہنچے تھے۔ یہ چاروں پاکستان کے پہلے نیوی کمانڈر انچیف ریئر ایڈمرل جے ڈبلیو جو فورڈ کی کمان میں تھے۔ 1954ء میں پاک بحریہ کے بیڑے میں چار تباہ کن جہاز، چار فریگیٹ ، پانچ مائن سوئیپر اور ایک ٹرانٹر شامل تھے۔ پاکستان کی زندگی کے پہلے عشرے میں اس مختصر سی نیوی نے جو شاندار خدمات سر انجام دی ہیں ، وہ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں ۔ 1955ء میں مزید مائن سوئیپر خریدے گئے ۔جدید جہازوں کو چلانے کیلئے عملے کی تربیت کا بندوبست بیرون ملک سے کیا گیا ۔ 1957ء میں دو ساحلی مائن سوئیپروں کے علاوہ کروز ’’ بابر’ اور تباہ کن بدر‘ عالمگیر اور جہانگیر کا اضافہ کیا گیا ۔1960ء میں ایک فلیٹ ٹینکر اور ایک آبدوز ملی ۔ 1970ء میں تین اور آبدوزوں کو بحری بیڑے میں شامل کیا گیا ۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں صدر مملکت ایوب خان نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ’’ پاکستان نیوی کا اس جنگ میں کوئی کردار نہ ہوگا، یہ جنگ زمین پر پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں لڑی جائے گی اور اس جنگ میں پاکستان آرمی اور ائیر فورس حصہ لیں گی ۔‘‘ ایوب خان کا موقف غلط تھا کہ ہمیشہ سے زمین کے ساتھ ساتھ سمندر بھی جنگ کا میدان رہے ہیں۔ 1971ء کی جنگ میں بھارت کی چھوٹی چھوٹی گن بوٹوں نے پاکستان کی سمندری حدود کے گرد ایک ایسا حصار قائم کر لیا کہ پاکستان کی واحد بندرگاہ کراچی نہ صرف غیر موثر ہو گئی بلکہ بھارتی نیوی اور ہوائی جہازوں کے حملوں نے اس کو ناکارہ بھی بنا دیا ۔ 1971ء کی جنگ کے بعد اور سقوط مشرقی پاکستان کے المناک سانحے کے بعد ارباب اقتدار کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ماضی میں نیوی سے متعلق حکومتوں کی پالیسی مناسب اور معقول نہیں تھی ۔ چنانچہ پاکستان نیوی کے نئے خدوخال ابھرنا شروع ہوئے اور بہت کم وقت میں پاکستان نیوی نے اپنے دور ثانی میں انتہائی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں ۔ اب پاکستان نیوی چھوٹی ہونے کے باوجود بھی طاقتور ہے۔ اس کے بیڑے میں وقت کے تقاضوں کے مطابق بحری جہاز ، میزائل بردار کشتیاں ، آبدوزیں اور جدید ترین ہتھیار اور اس کے فضائی بازو میں شامل جہاز شکن و آبدوز شکن طیارے اور ہیلی کاپٹر شامل ہیں ۔ ’’ جلالت ‘‘ پاکستان کے نیول انجینئروں اور ماہرین کی تیار کر دہ پہلی میزائل بوٹ ہے۔ ’’ جلالت ‘‘ پاکستان کی سمندری حدود کی نگرائی اور نگہبانی کے فرائض سر انجام دیتی ہے اور حالت جنگ میں دشمن کے جنگی جہازون کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ دشمن نیوی کی بچھائی گئی جدید ترین بارودی سرنگ کو تباہ کرنے والا مائن کاؤنٹر میٹر روسل پاکستان میں تیار کیا گیا ہے۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان نیوی کے ماہرین نے جدید ترین آبدوز تیار کی ہے۔ اسٹیٹ آف دی آرٹ جنگی جہازوں اور جدید ترین آبدوزیں بھی تیار کی گئی ہیں ، جو کہ پاکستان کیلئے سرمایہ افتخار ہیں ۔ حرف آخر کے طور پر عرض کروں گا کہ وسیب کے لوگوں کو بھی شکایات ہیں اور پاکستان کے کچھ مزید پسماندہ اور محروم علاقے بحریہ کی برکات سے محروم ہیں۔ ایسا طریقہ کار وضع ہونا چاہئے کہ پاک بحریہ کے قومی ادارے کی ملازمتوں میں سب کو برابر حصہ ملے۔

 

 

 

 

 

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author