حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرکٹ کبھی بھی پسندیدہ کھیل نہیں رہا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں (اب یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ عمران خان اس کی وجہ ہے) ایک وجہ اس کی غالباً کرکٹ کی وجہ سے ہاکی کے کھیل کا نظرانداز کیا جانا اور گرائونڈز کا ویران ہونا ہے۔ کیبل پر چینل تبدیل کرتے ہوئے دوچار گیندوں کے پھینکے جانے کا نظارہ لینے کی قسم نہیں دی جاسکتی کوشش یہی ہوتی ہے کہ چینل بدل لیا جائے۔ کرکٹ کے پاک بھارت میچ جس طرح واہگہ کے دونوں اَور پانی پت کی دوسری لڑائی کا سماں بنادیتے ہیں اس میں بیزاری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کھیل کھیل ہے اور کھیل کے میدان میں سپورٹس مین سپرٹ بہت اہم ہے۔ پاک بھارت میچوں کے دوران دونوں ملکوں کے شائقین کا جارحانہ طرزعمل کبھی پسند نہیں آیا۔
ویسے بھی میں کھیل، فلم، موسیقی، کلچر کو سرحدوں کی باڑوں سے نہیں دیکھتا۔ اسی لئے گزشتہ روز پاک افغان کرکٹ میچ کے نتیجے کے بعد افغان تماشائیوں کے ردعمل پر افسوس ہوا اور ایسا ہی افسوس ان پاکستانی شائقین کی سوچ پر ہے جو چند درجن افراد کے منفی رویوں کو افغان قوم کے کھاتے میں ڈال کر وہ سب کچھ کہہ لکھ رہے تھے جس کی ضرورت نہیں تھی۔
کیوں نہیں تھی؟ میں عرض کرتا ہوں بس چند ساعتوں کے لئے سانس لیجئے۔ گزشتہ شب شارجہ میں افغان کرکٹ شائقین نے اپنی ٹیم کی ہار کا بدلہ جس طرح چکایا ایسا ہی جواب اگر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین اور غیرقانونی افغان تارکین وطن کو دیا جائے تو افغان قوم پر کیا گزرے گی ؟
ان پر تو جو گزرے گی وہ الگ ہے ہمارے پشتون قوم پرست دوست اور مسلم پشتون ولی والے دکاندار بھی آسمان سر پر اٹھالیں گے۔ میری رائے میں شارجہ سٹیڈیم میں ہوئی طوفان بدتمیزی جتنی قابل مذمت ہے اتنی ہی مذمت ان رویوں کی بھی ضروری ہے جو پچھلی شب سے ہمارے محب وطن سوشل میڈیائی مجاہدین اپنائے ہوئے ہیں۔
دوستوں کی اکثریت پاک افغان تنازعات کی تاریخ سمجھارہی ہے۔ یہ تاریخ تلخ اور محبتوں کی بجائے نفرتوں سے عبارت ہے ، اس نفرت کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ڈیونڈر لائن کا تنازع بھی اٹھائے رکھا۔
دونوں باتیں بلاشبہ درست ہیں مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عدم تسلیم کا پس منظر کیا تھا اور ڈیونڈر لائن کا تنازع کیا۔
عدم تسلیم کا پس منظر پاکستان میں شامل اس وقت کے صوبے این ڈبلیو ایف پی کے پشتون علاقوں پر افغانستان کا حق دعویٰ تھا یہ دعویٰ برصغیر کے تبدیل ہوتے جغرافیہ اور پھر انگلش سرکار کے قیام سے در آئی تبدیلی کے ساتھ اس تاریخی اصول کے متصادم ہے اس کیلئے جغرافیہ کی ابتدائی تاریخ یا پھر کم از کم قریب ترین کی تاریخ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ مثلاً ڈیونڈر لائن پر خود موجودہ افغانستان کا معاہدہ برطانوی سامراج کے ساتھ تھا برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ اسی سے طے کیا جانا چاہیے تھا۔ این ڈبلیو ایف پی میں پاکستان میں شمولیت کے سوال پر ریفرنڈم کے سوال اور سرخپوشوں کے موقف کی اہمیت اپنی جگہ بہرطور ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر افغان انقلاب ثور تک افغانستان نے پختونستان کا ایشو ’’زندہ‘‘ رکھا۔ اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ افغانستان میں انقلاب ثور سوویت یونین کی مدد سے دائود حکومت کا تختہ الٹ کر آیا۔
سوویت یونین کی مدد سے آنے والے کمیونسٹ انقلاب سے بہت پہلے گل بدین حکمت یار۔ سیاف، مجددی اور بعض دوسرے رہنمائوں کے ساتھ رجعت پسند افغانوں کی بڑی تعداد پاکستان میں مقیم تھی۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ابتدائی طور پر ان رجعت پسندوں کو سردار دائود کے دور اقتدار میں (اس وقت پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار تھے) میجر جنرل نصیراللہ بابر کے توسط سے پاکستان آنے اور قیام کرنے کی دعوت دی گئی۔
کیا یہ دعوت پختونستان والے ایشو پر جوابی حکمت عملی تھی؟ اس کا جواب ذوالفقار علی بھٹو اور سردار دائود کی ملاقات میں ہی موجود ہے۔ اس ملاقات کی تفصیلات کم از کم تاریخ کے طالب علموں سے ڈھکی چھپی ہرگز نہیں۔
افغان انقلاب ثور کے خلاف امریکہ اور اس کے ’’اہل کتاب‘‘ اتحادیوں کے ردعمل کو بھانپ کر افغانستان کی کمیونسٹ حکومت نے سوویت یونین کو افغانستان کی تعمیر نو کے لئے دعوت دی اس باضابطہ دعوت کے بعد ہی سوویت فوجی اور مختلف شعبوں کے ماہرین افغانستان آئے سوویت یونین کی افغانستان آمد کے وقت پاکستان میں پی این اے اور امریکہ کی مدد سے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاء الحق کا راج تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ہمارے ہاں بھی یہ پروپیگنڈہ ہوا کہ سوویت یونین گوادر تک جانا چاہتا ہے تاکہ گرم پانیوں تک اسے رسائی حاصل ہو۔
کہا جاتا تھا کہ ابھی تو وہ افغانستان پر قابض ہوا ہے اگلا قدم پاکستانی بلوچستان میں رکھے گا۔
ہمارے ہاں سوویت یونین کے لئے ان دنوں "لادین سرخ ریچھ ” کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی اس لادین سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرنے کے لئے افغان جہاد کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یوں کہہ لیجئے کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے اور اسے افغانستان سے نکالنے کے لئے ’’اہل کتاب‘‘ میں اتحاد ہوگیا اس اتحاد نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا اور دنیا بھر سے جہادی بھرتی کرکے یہاں پہنچائے گئے۔
افغان جہاد کے آغاز پر ہمارے ہاں کچھ ہی لوگ اسے سوویت امریکہ جنگ سمجھتے تھے۔ ریاستی اسٹیبلشمنٹ جماعت اسلامی،دیوبندی مذہبی تنظیمیں ماسوائے جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود گروپ یہ گروپ اب جے یو آئی ف کہلاتا ہے تقریباً سبھی ہی جہاد کے پشت بان ہوئے۔ پیپلزپارٹی، اے این پی اور چند چھوٹی بائیں بازو کی جماعتیں اس کی مخالف تھیں۔ مرحوم ایئر مارشل اصغر خان بھی افغان جہاد کے ناقد تھے۔
اس جہاد کا انجام جنیوا معاہدہ پر ہوا۔ سوویت یونین افغانستان سے نکلا۔ مجاہدین آپس میں ہی گتھم گتھا ہوگئے۔ اس سول وار کے عرصہ میں امریکہ سوویت جنگ کے زمانے سے زیادہ افغان مارے گئے۔
طالبان کا ظہور بظاہر ملا عبدالسلام راکٹی کی بھتہ خوری سے شروع ہوا لیکن یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس گروپ کو ابتداً سی آئی اے کی پشت پناہی حاصل رہی امریکہ طالبان اختلافات بہت بعد میں شروع ہوئے۔ خانہ جنگی کے برسوں اور پھر طالبان کے ظہور کے بعد ہماری ریاست کے لاڈلے زیادہ تر افغان پشتون گروپ ہی رہے
غیر پشتون افغانوں میں پاکستان سے ناراضگی روز اول سے چلی آرہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ کمیونسٹ انقلاب کے حامیوں کی اکثریت میں غیرپشتون شامل تھے اسی لئے پاکستان نے جان بوجھ کر پشتونوں کی سرپرستی کی کیونکہ ڈیونڈر لائن کے دونوں طرف پشتون آباد تھے۔
امریکہ طالبان تنازع میں ہم امریکہ کے ساتھ بطور ریاست کھڑے رہے۔ 20سال کے اس عرصے میں ہم پر طالبان نوازی کے الزامات بھی خوب لگے ان الزامات کو رزق ہمارے ہاں کے ان مدارس اور تنظیموں نے فراہم کیا جو امریکہ کے خلاف افغان طالبان کی جدوجہد کو جہاد قرار دیتے تھے۔
1979ء میں انقلاب ثور آیا۔ جہاد ہوا پھر خانہ جنگی طالبان آئے غیر پشتونوں کی نسل کشی ہوئی۔ 9/11 کے بعد امریکہ بہادر نیٹو کے ہمراہ آگیا ہم اتحادی تھے
گزشتہ چالیس بیالیس برسوں کی ہماری افغان پالیسی کے حوالے سے ہم اپنی حب الوطنی کا ڈھول تو پیٹ سکتے ہیں لیکن اس عرصہ میں پروان چڑھنے والی افغان نسلوں کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ہماری طرح سوچیں۔
یہ درست ہے کہ کھیل کے میدان میں جس بڑے پنے کے مظاہرے کی ضرورت ہوتی ہے افغان کرکٹ ٹیم اس سے محروم ہے اور وہ پاکستان سے کرکٹ میچ کو غزنوی و ابدالی کی لشکر کشی کی طرح ہی دیکھتی اور اسی انداز میں برتائو کرتی ہے۔
البتہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اپنے اپنے وقت میں دونوں ریاستیں قصور وار ہیں۔ کوئی بھی اپنے کج اور ماضی کو دیکھنے پر آمادہ نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ