وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت انتظار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ اب جو بھی رحم کرنا ہے بارش اور سیلاب کو ہی کرنا ہے اور اس قیامتِ صغریٰ سے آئندہ بھی بہت حد تک نجی فلاحی تنظیموں اور خود سیلاب زدگان نے ہی نمٹنا ہے۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ آرمی ایوی ایشن، پاک فضائیہ، بحریہ، نیم عسکری و سویلین اداروں، کارپوریٹ سیکٹر اور ذاتی استعمال کے لیے سرکاری عمل داروں کے پاس کُل ملا کے کتنے ایسے ہیلی کاپٹروں اور انسان و مال بردار کشتیوں کا بیڑا ہے جن میں کم از کم دس بیس افراد کو لانے لے جانے یا رسد کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش ہو۔
پر اتنا معلوم ہے کہ اس وقت 30 فیصد زیرِ آب پاکستان میں بمشکل درجن بھر امدادی ہیلی کاپٹر اڑ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ تو ہم 23 مارچ اور 14 اگست کو پرواز کرتے دیکھ لیتے ہیں۔
یہی حالات 2005 کے زلزلے کے دوران بھی تھے۔ اگرچہ تباہی کا جغرافیائی دائرہ موجودہ سیلابی آفت کے رقبے کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ پھر بھی امدادی و ہنگامی کاموں کے لیے افغانستان سے آنے والے امریکی شنوکس اور جاپانی ہیلی کاپٹرز کو مدد کرنا پڑ گئی۔
یہی حال سنہ 1973 میں بھی تھا جب جنوبی ویتنام سے امریکی ہیلی کاپٹروں کا ایک سکواڈرن پاکستان میں سیلاب میں گھرے جنوبی پنجاب میں امداد گرانے کے لیے فراہم کیا گیا۔
سنہ 2005 کے زلزلے کے نتیجے میں ایک ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی شکل میں پیدا ہوا تاکہ متعلقہ سویلین و عسکری اداروں، صوبائی و مقامی انتظامیہ اور سویلین امدادی تنظیموں کی باہمی رابطہ کاری کے لیے ایک چھتری کا کام کرے۔
نیز ہر قدرتی آفت کے دورانیے میں سامنے آنے والی خامیوں اور وسائل کی قلت سے سبق لے کر ایسی مسلسل حکمتِ عملی بھی مرتب کرتا رہے جو زیادہ مؤثر طور پر کسی بھی اگلی قدرتی آفت سے نمٹنے کے کام آ سکے۔
یہ بھی گمان تھا کہ این ڈی ایم اے نہ صرف خود مختار ادارہ ہوگا بلکہ اس کے تصرف میں تمام ضروری ہنگامی وسائل بھی ہوں گے تاکہ قومی سطح پر وسیع امدادی جال کی بنت تک دستیاب وسائل کو نقصانات کم سے کم رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
مگر عملی تصویر یہ ہے کہ این ڈی ایم اے ایک آفاتی پوسٹ آفس ہے۔ جب مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے تب وہ ایک ایک متعلقہ ادارے سے فرداً فرداً فریاد کرتا ہے کہ یہاں یہ امداد فوراً چاہیے اور وہاں اس شے کی اشد ضرورت ہے۔ اب یہ متعلقہ ادارے کی مرضی کہ وہ کتنی عجلت یا تاخیر سے سائل کی درخواست پر کوئی عملی کارروائی کرتا ہے۔
مفلوجیت کا یہ عالم ہے کہ چند ماہ پہلے شمال مشرقی بلوچستان میں چلغوزے کے جنگلات میں جو آگ بھڑکی اسے بجھانے کے لیے خصوصی آلات و سہولتوں سے مزین ایک ایرانی طیارہ منگوانا پڑا کیونکہ ایٹمی طاقت کے پاس یہ ناگہانی آگ بجھانے کی نہ کوئی حکمتِ عملی تھی اور نہ بظاہر تسلی بخش وسائل۔
مثالی صورت تو یہ ہوتی کہ جس طرح انتخابات کا اعلان ہوتے ہی تمام انتظامی اداروں، وسائل اور روزمرہ نظم و نسق کا کنٹرول الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح قدرتی آفت کی صورت میں اسی طرح کا کنٹرول این ڈی ایم اے کو منتقل ہو سکتا۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا ڈھانچہ کیا ہے اور یہ کس طرح کام کرتا ہے؟
اس بابت سب جانتے ہیں۔ لیکن این ڈی ایم اے کے اندرونی ڈھانچے کی ساخت کیا ہے۔ وہ اپنے کاموں میں کتنا آزاد اور کتنا پابند ہے اور عملاً کسے جوابدہ ہے۔ اس کی اتھارٹی کو ماننا دیگر اداروں کے لیے لازمی ہے یا اختیاری۔ کوئی ٹھیک سے نہیں جانتا۔
تازہ آفت نے ملکی ڈھانچے کو جتنا مادی نقصان پہنچایا وہ پاک بھارت جنگوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی طویل جنگ سے پہنچنے والے مجموعی نقصانات سے بھی زیادہ ہے۔
اگر اتنی بڑی قدرتی آفت کو بھی جنگی انداز میں دیکھنے کی عادت ہوتی تو پھر اس سے بھی ایک متحدہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے ذریعے نمٹا جا سکتا تھا۔
مگر آج تک یہی معلوم نہیں ہو پایا کہ کون سی ایک اتھارٹی یا ادارہ یا فرد اس جنگ میں مرکزی کردار ہے کہ جس کی جانب نگاہیں اٹھ سکیں۔ اس سے کہیں بہتر مربوط کارکردگی تو ہم نے کووڈ کے خلاف جنگ میں دکھائی تھی۔
مستقبلِ قریب میں کسی پاک بھارت جنگ کا امکان بہت کم ہے۔
کوئی بڑی پاک افغان جنگ نہیں ہو گی۔ ایران سے کبھی تعلقات اتنی نچلی سطح پر نہیں آئیں گے کہ مُکے بازی کی نوبت آ جائے۔ مستقبل قریب میں امریکی فوجیں اترنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نیا باب بھی اس طرح کُھلتا نظر نہیں آتا جس طرح کے خونی دور سے ہم گزر چکے ہیں۔
ہو سکتا ہے بیشتر پاکستانیوں اور ان کی قیادت کو ادراک نہ ہو مگر 12 برس پہلے (سنہ 2010 کا سیلاب) پاکستان کی بقا کی سب سے بڑی جنگ چھڑ چکی ہے۔
ماحولیاتی عناصر نے چھ اطراف سے ( اوپر اور نیچے سمیت) محاصرہ کر لیا ہے۔ اس کے توڑ کے لیے نئی حکمتِ عملی، نئے ہتھیار، نئی تربیت اور پالیسی ساز اداروں اور دماغوں کی سافٹ ویئر اپ ڈیٹنگ درکار ہے۔ اب ایک نیا عسکری ڈاکٹرائن چاہیے۔
مگر مجھے تو چاروں طرف بوڑھے طوطے دکھائی دے رہے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر