گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر افتخار احمد اور امن کی آشا
بدھ کے روز گومل یونیورسٹی کے سٹی کیمپس میں ڈیرہ کے ممتاز شاعر جناب رمضان کاوش کی شاعری کی کتاب ۔۔فجر تھی گئی ۔۔۔ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئ جس کے مہمان خصوصی گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد تھے۔ اس تقریب میں انہوں نے بڑی اہم باتیں کیں ۔انہوں نے دانشوروں ۔ادیبوں شاعروں اور صحافیوں پر زور دیا کہ وہ یونیورسٹی کے ساتھ ملکر امن کے فروغ کے لیے پروگرام ترتیب دیں وہ ان سے مکمل تعاون کرینگے ۔ ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا اسلام دنیا میں امن ۔محبت ۔بھاۓ چارے کا داعی ہے اور فرقہ واریت و انتشار پوری امت کو تباہ کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا دانشور ادیب شاعر مل بیٹھ کر نوجوان نسل اور عوام کے لیے ایسے پروگرام لکھیں جن سے پاکستان کی اصل روح جھلکتی ہو ۔کیمپس میں نوجوانوں کے تربیت کے لیے مزاکرے اور سیمینار منعقد کریں۔۔دنیا میں کسی فرد یا قوم نے امن کے بغیر ترقی نہیں کی۔ لڑائی جھگڑے ۔فسادات۔فرقہ واریت قوموں اور افراد کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ڈیرہ جو مثالی امن کا شھر تھا اس کو گزشتہ دو عشروں کے دوران فسادات کی آگ بھڑکا کر ترقی کی دوڑ میں کئی سال پیچھے دھکیل دیا گیا۔ جب بھی یہ شھر سنبھلنے لگتا ہے اس میں طرح طرح کے مذھبی اور سیاسی لسانی یا قومیت کے انتشار کی آگ تیز کی جاتی ہے۔ جن انتشار پسند لوگوں نے یہ سیاہ دور دیکھا بھی ہے وہ سبق حاصل نہیں کرتے اور جونہی موقع ملتا ہے اپنا بدامنی کا ایجنڈا لے کر آگے آ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور فرقہ واریت جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو۔۔ تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔
پُرامن سماج اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل جل کر ڈیرہ کو امن کا شھر بنائیں تاکہ یہاں ترقی کی رفتار تیز ہو اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔ ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا وہ plurism پر یقین رکھتے ہیں ۔پاکستان کی مختلف زبانیں ایک گلدستہ کی طرح ہیں جن کی منفرد خوشبو ہے ۔ سرائیکی زبان شھد کی طرح میٹھی ہے جس کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اس لیے انہوں نے گومل یونیورسٹی میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر افتخار احمد نے رمضان کاوش کی کتاب سے سرائیکی کے اشعار پڑھ کر حاظرین کو حیران کر دیا اگرچہ ان کی مادری زبان پشتو ہے۔
اس تقریب سے سٹیشن ڈائرکٹر ریڈیو پاکستان ڈیرہ ڈاکٹر نجم الحسن ۔جناب محمد یعقوب بابر ۔ جناب عصمت گورمانی ۔مخمور قلندری ۔ اعجاز قریشی ۔رمضان کاوش ۔ گلزار احمد نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر آفتاب اعوان نے ادا کیے۔سٹیج پر ماہر تعلیم ڈاکٹر قیصر انور بھی موجود تھے جو تعلیمی اداروں میں سرائیکی کورس کی کتابوں کے مصنف ہیں۔اس کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم جیلانی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اور ڈین فیکلٹی آف ایگریکلچر نے بھی شرکت کی۔
ادب کے حوالے سے یہ ڈیرہ اسماعیل خان کی یادگار تقریب تھی جس کے لیے رمضان کاوش مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر