نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برصغیر کی تاریخ کا سبق ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رکھیں ماضی انسان کے رہنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ماضی آپ کی Visit کرنے کی جگہ ھے جہاں سے آپ سبق حاصل کرتے ہیں اور اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بناتے ہیں۔ کوئی بھی انسان ماضی میں جا کر کسی نئیے کام کا آغاز تو نہیں کر سکتا۔ہاں آپ آج یعنی اس وقت ایک نیا کام شروع کر کے اس کو ایک بہترین انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔آج ہم انڈیا کی تاریخ کا ایک گوشہ دیکھتے ہیں اور پھر اپنے حالات کا جائیزہ لے کر اسے بہتر بنانے کی سوچتے ہیں۔ہندوستان میں اسلام شروع میں عربوں کے ذریعے داخل ہوا مگر اسے طاقت اور حکومت کی شکل ترکوں نے دی جو فتوحات کے ذریعے یہاں کے حکمران بن گیے۔سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ ترک کیوں ہندوستان میں کامیاب ہوے اور یہاں کے راجپوتوں کو شکست دی حالانکہ راجپوت بہادری اور شجاعت میں کسی طرح بھی ترکوں سے کم نہ تھے! اس سارے قصے کی وجوہات فوجی نہیں بلکہ سماجی تھیں۔گیارویں صدی کا انڈیا ایک ایسا ملک تھا جس میں قلعہ بند شھر اور قصبے تھے اور ان میں اعلی طبقہ کے لوگ رہتے تھے۔جبکہ معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ اس سہولت سے محروم تھے اور وہ اس بات پر مجبور تھے کہ وہ غیر محفوظ اور کھلے گاوں میں رہیں اور شھر کی فصیل سے باھر اپنی بستیاں آباد کریں۔ ان کی بستیوں پر ڈاکو۔چور۔حملہ کرتے ان کے جانور اور عورتیں بھگا لے جاتے مگر ساری حفاظت شھر کے لوگوں کے لیے تھی۔ان نچلے طبقے کے لوگوں کو شھر میں داخلہ صرف کام کرنے کی غرض سے ملتا تھا۔ ان میں اور حکمرانوں میں دوری تھی انکے درمیان کوئی انٹرایکشن رشتے نہیں تھے۔ذات پات کا نظام مضبوط تھا۔ دستکار۔لوہار۔نائی۔مراثی ۔درکھان ۔ ذات پات کے نظام میں بہت نیچے تصور کیے جاتے تھے۔جب ترک حملہ آور آے تو اس نچلے مظلوم اور کچلے ہوے طبقے نے ان ترکوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اور ان محنت کش سخت جاں طبقوں کے بغیر عیش و عشرت اور آسائیش و زیبایش میں رھنے والے شھری کس طرح ترکوں کا مقابلہ کرتے؟ جبکہ باھر کے لوگ سب راجپوتوں کے ظلم وجبر اور ذات پات کے نظام سے تنگ آکر باھر کے حملہ آوروں کے ساتھ ہو گیے۔اس طرح راجپوت شکست کھا کر مٹی چاٹنے پر مجبور ہو گیے۔جب ترکوں کی حکومت قایم ہو گئی تو انہوں نے باہر رہنے والے نچلی ذات کے لوگوں کو شھر کے اندر رھنے کی اجازت دے دی۔ ان محنت کشوں نے شھر کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا اور شھر میں آذادی سے تجارتی اور گھریلو صنعتیں فروغ پانے لگیں۔اسلامی شریعت کے قوانین کو بھی ان غریبوں نے پسند کیا جو ہندووں کے ذات پات کے مقابلے میں مساوات۔جمھوریت اور انسانی قدروں پر مبنی تھے۔ اور کافی لوگوں نے خوشی سے اسلام قبول کر لیا۔یہی لوگ ترکوں کی حکومت کو مضبوط کرنے میں آگے آگے تھے اور منگولوں کے حملوں کو پسپا کرتے رہے کیونکہ ترک انہیں سماجی حقوق دے رہے تھے جس سے وہ پہلے محروم تھے۔غوری فتوحات نے بھی ایک نیا سماجی نظام تشکیل دیا جو ہندوستانی معاشرہ کی ذات پات کے خلاف تھا۔ المختصر ہندوستان پر مسلمانوں نے 764 سال حکومت کی اور ہر طبقے کو مساوی حقوق دیے۔ اب واپس پاکستان چلتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ھے کہ حضرت عمرؓ نے حکم دے رکھا تھا کہ جب شھر کی آبادی پانچ لاکھ ہو جاے تو اسے پھیلنے سے روکیں اور ساٹھ ستر میل دور پانچ لاکھ آبادی کا نیا شھر بسائیں۔اس طرح۔ماحول۔پانی۔صفائی ستھرائی۔بنیادی سھولتوں کا نظام بہترین ہوتا ھے۔ہمارے ہر شھر کے اردگرد کالونیاں بن رہی ہیں ۔درخت کٹ رہے ہیں۔زراعت کی زمین پر عمارتیں بن رہی ہیں ۔پرندے اور شھد کی مکھیاں نظر نہیں آتیں۔ماحول آلودہ ہو رہا ہے مگر ہمیں ہوش نہیں آ رہا۔ دوسری بات یہ ھے کہ حکومت پر چند خاندانوں کا قبضہ ھے اور وہی بدل بدل کر باریاں لے رھے ہیں۔عوام کمی کمین بن کے رہ گیے ہیں۔تیسرا مسئلہ یہ ھے کہ تمام جدید سھولتیں تعلیم۔صحت۔مواسلات شھروں تک محدود ہیں اور دور دراز کے عوام یکسر ان سھولتوں سے محروم ہیں۔ لوگوں کو پینے کا پانی۔صحت اور تعلیم کی سھولتیں تک میسر نہیں تو وہ کس طرح ترقی کی رفتار میں حصہ لیں؟۔ اگر آپ اس طرح لوگوں میں محرومی پیدا کرتے رہینگے تو لوگ کس طرح گزارا کرینگے؟۔تمام دھشت گردی۔جرائم۔خودکشیاں۔وہیں جنم لے رہی ہیں جن طبقوں کو 75 سالوں سے محروم رکھا گیا ھے۔ اب نعروں کا زمانہ گزر گیا بھائی کام اور صرف کام آپکی بقا کا ضامن ھے۔آو ان غریب و بیکس طبقے کا ہاتھ پکڑو تاکہ ملک مضبوط ہو ورنہ چند مخصوص شھروں کو ترقی دے کر آپ نے دیکھ لیا آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ملک اقتصادی طور پر کہاں ھے؟

About The Author